Time 21 نومبر ، 2020
بلاگ

عدلیہ کے وقار کی رخصتی

فوٹو: فائل

ویسے تو ہر انسان اپنی جگہ قیمتی ہے اور ہر ایک کی رحلت سے اس سے وابستہ انسانوں کی دنیا اجڑجاتی ہے لیکن گزشتہ چند دنوں کے اندر کئی قریبی لوگ ہم سے جدا ہوگئے، جن کا غم ایک عرصہ تک ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔ 

برادر عزیز حسن الامین کی والدہ جو ہمارے لیے بھی والدہ کی حیثیت رکھتی تھیں، رحلت فرماگئیں، تازہ ترین بری خبر سراج الحق صاحب کی والدہ کی رحلت تھی، ان سے خاص قربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہماری ہر ملاقات میں اولین موضوع میری والدہ اور ان کی والدہ کی صحت کا تذکرہ ہوا کرتا تھا۔

ایک اور دردناک اورالمناک خبر جس نے ہم سب کو تڑپا دیا ، وہ ہمارے جیو کے ساتھی اور ملنسار انسان ارشد وحید چوہدری کی کورونا کی وجہ سے رحلت تھی، انہوں نے ماحول کو یوں غمزدہ کردیا کہ دو تین دن تک مجھے دفتر جانے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا اور اب بھی دفتر میں قدم رکھتے ہی ان کی یاد ستانے لگتی ہے، اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان، جن میں ہم خود بھی شامل ہیں، کو صبرِ جمیل سے نوازے ۔

کورونا کی وبا اب کی بار پہلے سے زیادہ ظالم بن کر لوٹی ہے اور اس نے ہمت اور جرات کے پہاڑ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار کو بھی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا۔

عدلیہ کے وقار ، ڈی آئی خان کے وقار ، پختونخوا کے وقار بلکہ پورے پاکستان کے وقار جسٹس سیٹھ وقار اب ہم میں نہیں رہے، ان کے بعض فیصلوں اور بعض فیصلوں کے بعض فقروں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ہم نے کیا بھی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ جسٹس سیٹھ وقار ان چند ججز میں سے ایک تھے، جنہوں نے تاریکی کے اس دور میں حق اور انصاف کی شمع جلائے رکھی، وہ ان ججز میں سے ایک تھے جو خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔

میرا ان سے ذاتی تعلق نہیں تھا لیکن ان کے یونیورسٹی کے دنوں کے دوست شیراز پراچہ اور ان کے قریب رہنے والے سلیم شاہ ہوتی ایڈوکیٹ جیسے لوگوں کی تحریر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دورِ طالب علمی سے ایسے ہی تھے۔ 

یعنی قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھنے والے، جمہوریت اور آئین کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والے، سادہ اتنے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو سیکورٹی کے مسائل کے باوجود پہلی فرصت میں اپنے ساتھ گاڑیوں کا قافلہ کم کروایا، دیانتدار اتنے کہ رحلت سے قبل بھی ڈاکٹر کو نصیحت کررہے تھے کہ ان کا بل سرکار کے خزانے سے نہیں بلکہ ان کے ذاتی اکائونٹ سے ادا ہونا چاہیے۔

میں جانتا ہوں کہ انہوں نے کئی طاقتور لوگوں اور طاقتور اداروں کو ناراض کیا تھا، وہ کئی لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے، تبھی تو تین مرتبہ سپرسیڈ کرکے انہیں سپریم کورٹ آنے نہیں دیا گیا۔ 

میں اس سے بھی آگاہ ہوں کہ ان کے بعض فیصلوں کی وجہ سے بعض لوگوں نے ان کو اور ان کے اہل خانہ کو ٹارچر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا لیکن میں ذاتی معلومات کی بنا پر یہ بھی جانتا ہوں کہ ان کی رحلت میں کسی کا کوئی ہاتھ تھا، کوئی سازش ہوئی اور نہ ان کے علاج میں رتی بھر غفلت، اس لیے یہ حقائق آپ کے سامنے لانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ سیٹھ وقار صاحب کافی عرصہ سے عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھے، شوگر کا مرض بھی لاحق تھا اور بلڈ پریشر کا بھی اور پھر جب انہیں کورونا کی وبا بھی لگ گئی تو چند روز تک پشاور میں علاج کے بعد خود ان کی خواہش پر اُنہیں اسلام آباد کے ایک نجی اسپتال میں ان کے پسند کے ڈاکٹر کے پاس لایا گیا۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ جس ڈاکٹر کے پاس جسٹس صاحب زیرعلاج رہے، وہ میرے دوست اور میری والدہ کے بھی معالج ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے میدان کے ’’سیٹھ وقار‘‘ ہیں۔ 

کورونا کے ابتدائی دنوں سے لے آکر آج تک وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر جس طرح انسانی زندگیوں کو بچارہے ہیں، اس کی مثال نہیں ملتی، سیٹھ وقار کی طرح ڈاکٹر شازلی منظور کو بھی صرف اپنے کام سے کام ہوتا ہے اور ایک بہترین پروفیشنل کی طرح بغیر کسی خوف اور مصلحت یہ لوگ کے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔

ان سے کسی قسم کی دانستہ غفلت یا پھر کسی سازش کا حصہ بننے کا تصور کرنا ایسا ہے جیسا کہ جسٹس سیٹھ وقار کے بارے میں یہ تصور کیا جائے کہ انہوں نے رشوت لے کر کوئی فیصلہ کیا ہو۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ جسٹس وقار صاحب کو جب اسلام آباد کےاسپتال میں لایا جارہا تھا تو اس وقت سے ان کے بھائی، بیٹی اور بہنوئی، جو خود ڈاکٹر ہیں، اُن کے ساتھ تھے، ان کے پروٹوکول آفیسر بھی ساتھ رہے، اس دوران سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز متعلقہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رابطے میں رہے۔ 

اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کے رجسٹرار بھی وقتاً فوقتاً ان کی خبر لیتے رہے، چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے نومنتخب صدر عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ کا ان کے ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ میں نے ہی کروایا تھا لیکن کورونا کے ایس اوپیز اور خود جسٹس صاحب کی تاکید کی وجہ سے فیملی ممبرز کے سوا اس پورے عرصے میں کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا۔

چوتھی حقیقت یہ ہے کہ جسٹس صاحب بار بار فیملی ممبرز کو بھی جانے کی تلقین کررہے تھے لیکن ان کی مخصوص صورت حال کی وجہ سے ان کی فیملی کو نہ صرف ان کے کمرے تک رسائی حاصل تھی بلکہ ایک منٹ کے لیے بھی ان کو تنہا نہیں چھوڑا گیا جبکہ دوسری طرف ان کی تاکید کی وجہ سے ان کے قریبی دوست ججز کے سوا کسی اور کو خبر نہیں لگنے دی گئی کہ جسٹس صاحب یہاں زیرعلاج ہیں۔ 

خود میں واٹس ایپ کالمز کے ذریعے جسٹس صاحب کی حالت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے دریافت کرتا رہا لیکن میں نے وہاں پر ان کے زیرعلاج ہونے کی خبر دی اور نہ کسی کو بتایا، صرف عبدالطیف آفریدی ایڈوکیٹ کو میں نے ان کے ڈاکٹر کا بتایا اور ان کا نمبر دیا۔

اس کے باوجود اگر کسی کو کوئی شک ہے تو ان کے فیملی ممبران سے رجوع کیا جاسکتا ہے، اب فیملی کی طرف سے تو کسی شک کا اظہار ہوا ہے اور نہ ان کو اسپتال یا ڈاکٹر سے کوئی شکایت ہے لیکن افسوس کہ بعض لوگ اس معاملے پر اپنا اسکور برابر کرنے یا پھر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے جسٹس صاحب کی رحلت سے متعلق سوشل میڈیا پر سازشی تھیوریز پھیلا کر ان کے لواحقین کے غم کو اور بھی گہرا کررہے ہیں اور اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر دن رات لوگوں کی زندگیاں بچانے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کےلئے پریشانی کا بھی سبب بن رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔