Time 05 دسمبر ، 2020
بلاگ

روک سکو تو روک لو

فوٹو: فائل

پرانے پاکستان میں جی ڈی پی 5 اعشاریہ 8 فیصد تھا، نئے پاکستان میں 2019 کے دوران ایک اعشاریہ 90 فیصد تک گر گیا اور امسال کے لیے منفی صفر اعشاریہ چالیس تک گرنے کا امکان ہے، جی ڈی پی کی یہ گرتی ہوئی شرح روز پکار رہی ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن کوئی روکنے والا نہیں۔

ورلڈبینک کے مطابق سال رواں کے دوران ہندوستان کی جی ڈی پی گروتھ 5 اعشاریہ 40 فیصد، سری لنکا کی 3اعشاریہ 30 فیصد ، افغانستان کی 2 اعشاریہ 50 فیصد، بنگلا دیش کی ایک اعشاریہ 60 فیصد جبکہ وطن عزیز پاکستان کی صفراعشاریہ 50 فیصد رہے گا۔

افغانستان کی 2 اعشاریہ پچاس فیصد اور عمران خان کے نئے پاکستان کی صفر اعشاریہ پچاس فیصد، یہ حالت کردی ہم نے پاکستان کی کہ افغانستان کی جی ڈی پی گروتھ ہم سے بہتر ہوگیا۔

عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق سال رواں کے دوران ہندوستان میں مہنگائی کی شرح 3 اعشاریہ 5 فیصد، افغانستان میں 3 اعشاریہ 8 فیصد، بنگلا دیش میں 5 اعشاریہ 5 فیصد ، سری لنکا میں 6 فیصد جبکہ پاکستان میں 12 فیصد رہے گی۔ 

اس حوالے سے بھی عمران خان نے پاکستان کو افغانستان سے پیچھے دھکیل دیا اور پاکستانی غریب مہنگائی کا رونا رو رو کر التجائیں کررہا ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن روکنے والا کوئی نہیں۔

پرانے پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت 116 روپے تھی جبکہ اب نئے پاکستان میں ایک ڈالر کا تبادلہ 160 روپے سے ہورہا ہے، ڈالر اوپر جاتے ہوئے للکار رہا ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو جبکہ روپیہ زوال پذیر ہوکر التجائیں کررہا ہے کہ میرے زوال کو روک سکتے ہو تو روک لو، گردشی قرضہ 2018 کے پرانے پاکستان میں 1100 ارب تھا۔

2019 میں عمران خان کی حکومت میں 1565 ارب روپے ہوگیا اور 2020 میں 2240 ارب روپے تک جا پہنچا، یہ قرضہ بھی للکار رہا ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ حکومت مافیاز کے ہاتھوں میں ہے، پرانے پاکستان میں 2018 کے دوران پاکستانیوں کی فی کس آمدنی 1652 ڈالر تھی۔

عمران خان کے نئے پاکستان میں 2019 کے دوران کم ہوکر 1455 ڈالر اور 2020 میں مزید کم ہوکر 1355 ڈالر رہ گئی، اسی رفتار سے کم ہوتی رہی تو خاکم بدہن ایک وقت آجائے گا کہ یہ پانچ سو ڈالر سے بھی کم ہوجائے گی، پاکستانی غریب چیخ رہا ہے کہ اگر روک سکتے ہو تو روک لو لیکن روکنے والا کوئی نہیں کیونکہ حکومتی پالیسیاں پاکستان کے امیر بنارہے ہیں۔

زرداری صاحب کے پرانے پاکستان میں ملکی قرضہ روزانہ پانچ ارب روپے بڑھ رہا تھا، نواز شریف کے پرانے پاکستان میں 8 ارب روپے بڑھ رہا تھا جبکہ عمران خان کے نئے پاکستان میں روزانہ 20 ارب روپے چڑھ رہا ہے ۔

یوں صدائیں بلند ہورہی ہیں کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن حفیظ شیخ کو کوئی فکر نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت کرنے کے بعد وہ باہر چلے جائیں گے، نئے پاکستان میں ایک سال کے دوران ٹماٹر کی قیمت میں 117 فیصد، آلو کی قیمت میں 64فیصد ، دال مونگ کی قیمت میں 41فیصد، انڈوں کی قیمت میں 40فیصد اور چینی کی قیمت میں 32فیصد اضافہ ہوا ہے ۔

غریب کی چیخیں نکل رہی ہیں اور وہ پکار رہا ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن روکنے والا کوئی نہیں کیونکہ عمران خان کے اردگرد بیٹھے ارب پتی خود بازار کہاں جاتے ہیں۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمران خان آئے گا تو چند ماہ کے دوران کروڑوں لوگوں کو نوکریاں دلوائے گا لیکن ان کی حکومت میں پہلے سال بیروزگار نوجوانوں کی تعداد 5اعشاریہ 80ملین ہوگئی جبکہ دوسرے سال بیروزگاروں کی تعداد بڑھ کر 6اعشاریہ 65ملین تک پہنچ گئی۔

بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے اور چیخ چیخ کر چیلنج دے رہی ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ عمران خان کے لاڈلوں زلفی بخاری وغیرہ کی نوکریاں لگی ہوئی ہیں۔

ہمیں کہا گیا تھا کہ عمران خان آئے گا ۔ اربوں ڈالر جمع کرائے گا ۔ چند ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گا اور باقی غریبوں پر خرچ کرے گا لیکن عمران خان آیا تو معیشت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سپرد ہوئی۔ مختصر دورے پر پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے نمائندے وزیرخزانہ بنائے گئے ۔ آئی ایم ایف ہی کے نمائندے کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا گیا ۔

آئی ایم ایف ہی اقتصادی پالیسیاں بنارہا ہے اور ہر روز یہی ہماری قومی غیرت کو للکار کر کہہ رہا ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو لیکن وہ کیوں روکے کیونکہ اقتدار انجوائے کرنے کے بعد تو یہ لوگ واپس امریکہ اور برطانیہ چلےجائیں گے۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمران خان آئے گا تو پاکستان جنت بن جائے گا اور باہر کی دنیا سے لوگ روزگار حاصل کرنے کے لئے پاکستان آئیںگے ۔

زلفی بخاری ، شہباز گل، حفیظ شیخ اور اسی طرح کے چند لوگ تو روزگار کے لئے پاکستان آگئے لیکن باقی ہر پروفیشنل اور صاحب سرمایہ پاکستان سے بھاگ رہاہے ۔ ہم پکار رہے ہیں کہ ان قیمتی لوگوں کو جانے سے روک سکتے ہو تو روک لو لیکن روکنے والا کوئی نہیں کیونکہ اس حکومت کو عالی دماغوں کی نہیں بلکہ شہباز گل جیسے زبان درازوں کی ضرورت ہے۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ تبدیلی آتے ہی پی آئی اے کو دوبارہ پاکستان کی نمبرون ایئرلائن بنایا جائے گا لیکن تبدیلی نے آتے ہی پی آئی اے کا جہاز اپنے ہاتھوں تباہ کر ڈالا۔

ہمارے پائلٹس جنہوں نے امارات ایئرلائن کے پائلٹوں کی تربیت کی تھی، پوری دنیا میں بدنام کردئیے گئے ۔ آج ہمارے جہاز یورپ نہیں جاسکتے ۔ یوں ہر کوئی پکار رہا ہے کہ یورپ کو اس طرح کے فیصلوں سے روک سکتے ہو تو روک لو لیکن کسی کو فکر نہیں کیونکہ وزیراعظم کے قریبی مشیروں کے بیرون ملک کاروبار تو پھل پھول رہے ہیں۔

قوم سے وعدے کیے گئے تھے کہ تبدیلی آئے گی تو پاکستانی عوام کو مافیائوں سے نجات دلادی جائے گی اور غریبوں کو مدنظر رکھ کر آزادانہ اقتصادی پالیسیاں اپنائی جائیں گی لیکن آج پاکستان اور دنیا بھر کی مافیائیں پاکستان پر حملہ آور ہیں۔

ملٹی نیشنل مافیاز، کنسٹرکشن مافیا، شوگر مافیا، صنعتی مافیا، آٹا مافیا، حتیٰ کہ میڈیا مافیا سب کے سب حکومت میں ہیں اور سب اقتصادی پالیسیاں ان کی مرضی اور منشا سے بنائی جارہی ہیں۔

یہ مختلف مافیاز پی ٹی آئی کے انقلابیوں کو ہر روز للکار رہی ہیں کہ روک سکتے ہو تو روک لو جبکہ دوسری طرف غربت اور بیروزگاری سے تباہ حال غریب رو رو کر پکار رہا ہے کہ اللہ کے بندو روک سکتے ہو تو روک لو لیکن روکنے والا کوئی نہیں بلکہ آئے روز یہ مافیاز عمران خان کے گرد اپنا دائرہ مضبوط سے مضبوط تر کررہی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔