11 دسمبر ، 2020
پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کے کراچی میں رواں سال مئی میں حادثے کا شکار ہونے والے بدقسمت طیارے کی رن وے پر پیٹ کے بل لینڈنگ کی ویڈیو سامنے آگئی۔
جیو نیوز کو اپنے ذرائع سے ملنے والی فوٹیج نے تصدیق کی ہے کہ اس سال 22 مئی کو حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے ائیربس طیارے کے پہیے لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران نہیں کھلے تھے اور لینڈنگ کے وقت بدقسمت طیارہ 3 سیکنڈز میں چار مرتبہ رن وے سے ٹکرایا۔
کراچی ائیرپورٹ کا رن وے نمبر 69 پر نصب کیمرے کے مطابق تاریخ ہے 22 مئی 2020 اور جمعے کا دن ہے، دوپہر 2 بج کر 33 منٹ اور 34سیکنڈ پر پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کا بدقسمت ائیربس اے 320 طیارہ لینڈنگ کی پہلی کو شش میں کیمرے کی رینج میں آتا ہے۔
اس موقع پر طیارے کے لینڈنگ گیر یعنی پہیے کھلے ہوئے نہیں ہیں، 2 بجکر 33 منٹ اور35 سیکنڈ پر طیارے کے انجن پہلی مرتبہ رن وے سے ٹکرائے اور شعلے بلند ہوئے۔
طیارہ فضا میں بلند ہوا، 2 سیکنڈ بعد طیارہ دوسری مرتبہ رن وے سے ٹکرایا اور پہلے سے زیادہ شعلے بلند ہوئے پھر ایک سیکنڈ بعد ہی دو بجکر 33 منٹ اور 38 سیکنڈ پر طیارہ تیسری مرتبہ ٹکراتا ہے۔
اسی لمحے طیارہ چوتھی مرتبہ بھی رن وے سے رگڑتا ہوا دور تک جاتاہے اور دو بجکر 33 منٹ اور 40 سیکنڈ بعد طیارہ فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ طیارہ صرف تین سیکنڈ میں چار مرتبہ رن وے سے ٹکراتا ہے۔
طیارے کی لینڈنگ اگر ماڈل کالونی کی جانب سے ہو تو کراچی ائیرپورٹ کا پارکنگ نمبر 69 وی وی آئی پی ٹرمینل اور کنٹرول ٹاور سے آگے ہے، اس کا مطلب یہ کہ نصف سے زیادہ رن وے کراس کرنے کے بعد پی آئی اے کے ائیربس طیارے نے رن کو پہلی مرتبہ چھوا اور جب طیارہ دوبارہ فضا میں بلند ہوا تو آگے رن وے نہیں بچا تھا۔
سول ایوسی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) سے دستیاب معلومات کے مطابق لینڈنگ سے 10 ناٹیکل میل پہلے طیارے کے پہیے کھلے ہوئے تھے لیکن بلندی زیادہ تھی، تیزی سے بلندی کم کرنے کیلئے پہیے بند کیے گئے، رن وے کے قریب پہنچنے پر بھی اسپیڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے طیارے کے پہیے نہیں کھلے۔
ماہرین کے مطابق طیارے کی اسپیڈ اگر 250 سے 260 میل فی گھنٹہ کے درمیان ہوتو حفاظتی نظام کے تحت طیارے کے پہیے نہیں کھلتے، بدقسمت طیارے کی لینڈنگ کے وقت اسپیڈ 250 میل فی گھنٹہ تھی اور خیال یہ ہے کہ اسی وجہ سے پہیے نہیں کھلے۔
اس دوران لینڈنگ کی دوسری کوشش میں طیارہ آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا، حادثے میں 97 مسافر شہید ہوئے اور صرف دو کی جان بچ سکی تھی۔
تحقیقات کاروں کے سامنے کئی سوالات ہیں کہ لینڈنگ کے وقت پائلٹ نے طیارے کی بلندی کیوں زیادہ رکھی؟ لینڈ نگ کرتے ہوئے پائلٹ کو کیوں علم نہیں ہوا کہ طیارے کے پہیے نہیں کھلے؟ طیارے کا سسٹم پہیے نہ کھلنے کی اطلاع بار بار دیتا ہے تو پائلٹ نے اس پر توجہ کیوں نہ دی یا سسٹم درست کام نہیں کر رہا تھا؟
جب ایک مرتبہ طیارہ رن وے کو ٹچ کر گیا تھا تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ائیر ٹریفک کنٹرولر نے دوبارہ طیارے کو فضا میں بلند کیوں ہونے دیا۔
سوال یہ بھی ہے کہ پائلٹوں کی تنظیم پالپا کا یہ مطالبہ کیوں نہ مانا گیا کہ انہیں بھی تحقیقات میں شامل رکھا جائے؟
پالپا کا موقف ہے کہ طیارے ہم اڑاتے ہیں، اگر پائیلٹ کی غلطی ہے تو وہ سامنے آنی چاہیے لیکن اگرکوئی دوسری بات ہے تو پائلٹوں کا مؤقف بھی رپورٹ میں شامل ہونا چاہئے اور دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ اس حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ دو مسافر زندہ بچ گئے تھے۔