13 دسمبر ، 2020
آج اتوارہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے ان کے تجسس دور کرنے کا دن۔ آج لاہور میں فیصلہ کن جلسہ بھی ہونے والا ہے۔
ہر دن ایک نیا چیلنج لے کر سامنے آتا ہے۔
کامیاب وہی لوگ۔ پارٹیاں اور ادارے ہوتے ہیں جو نئے چیلنجوں کا مقابلہ نئے دَور کے تقاضوں کے مطابق کرتے ہیں۔جو فارمولا فلموں۔ فارمولا ڈراموں۔ فارمولا احتجاجوں ۔ فارمولا ڈائیلاگوں سے وقت کی یلغار سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ وہ مایوس اور پریشان ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں ہر ایجی ٹیشن کے وقت مذاکرات کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے۔ آج کل بھی ڈائیلاگ کی بات ہورہی ہے۔ میڈیا کے بزر جمہر اپنی اپنی تاویلات دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان کے سرپرستوں نے ان کے سر سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اب وہ جانیں اور اپوزیشن جانے۔ وہ کچھ نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں تو اس طرح عمران خان کی مجبوریاں ختم ہوجائیں گی۔وہ آزادی سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کریں گے۔
یہ احوال جن حلقوں کا ہے ۔ وہ آبادی کا صرف ایک یا دو فیصد ہیں۔باقی ملک اپنی جگہ ٹھیک چل رہا ہے۔ کورونا کے باوجود بازار کھلے ہیں۔ کارخانے رواں ہیں۔ ٹرین دوڑ رہی ہے۔ شاہراہوں پر بسیں فراٹے بھر رہی ہیں۔ صرف سیاسی شور و غوغا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے ۔ این آر او نہیں دیں گے۔ مریم نواز کا فرمان ہے کہ اب عمران خان نواز شریف سے این آر او مانگ رہا ہے جو نہیں ملے گا۔ الیکٹرونک میڈیا نے پوری قوم کو ان دو فیصد کی سرگرمیوں ۔ بیانیوں میں الجھایا ہوا ہے۔ عوام کا مسئلہ ہے، مہنگائی۔ اس پر بیان بازی تو ہے مگر عملی اقدام نہ حکومت کی طرف سے نہ اپوزیشن کی جانب سے۔ اپوزیشن کے پاس سندھ صوبہ ہے۔ اشیائے ضروریہ صوبائی اختیار میں ہیں۔ سندھ میں اپوزیشن روز مرہ ضرورت کی چیزیں سستی کرسکتی ہے۔ کیوں نہیں کررہی ہے؟
ڈائیلاگ۔ مذاکرات۔ دنیا بھر میں ایک قابل تحسین عمل ہے۔ جنگ سے پہلے بھی مذاکرات ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے ناکام ہونے کی صورت میں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ لاشیں گرنے۔ شہر مسمار کرنے کے بعد پھر مذاکرات ہوتے ہیں لیکن مذاکرات نتیجہ خیز اسی صورت میں ہوتے ہیں جب فریقین ان پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مذاکرات۔ میثاق۔ معاہدوں پر دونوں طرف سے عملدرآمد ہونے کی روایات نہیں ہیں۔ مذاکرات اس صورت میں ہوتے ہیں جب معاملات متنازع ہوں۔ قوانین میں کوئی سقم ہو۔ آئین میں کوئی خلا ہو۔ اس وقت تو ایسا کوئی تنازع نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے والے اقتدار کے لیے بے تاب ہیں۔ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات سے خوف زدہ ہیں۔مہذب معاشرے اور جمہوری ریاستیں باہم مشورے سے ادارے تشکیل کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ ان کی توثیق کرتی ہے۔ اگر معاشرے کے کچھ طبقے ایسے ہوں جو اپنی مرضی کے فیصلے نہ ہونے پر عدالتوں کے احکام نہ مانیں ،۔ اداروں کے قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کریں، حتیٰ کہ جان بچانے والی تدابیر کو بھی تسلیم نہ کریں۔ وہاں مذاکرات یا ڈائیلاگ کا کیا فائدہ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ایک ملزم کو اشتہاری قرار دینے پر مجبور ہوجائے۔ لیکن وہی شخص ایک بڑی تعداد کا سپریم لیڈر ہو وہاں ڈائیلاگ کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ لندن میں طے ہونے والے میثاق جمہوریت کے بعد بھی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف جس قسم کے بیانات دیتی رہی ہیں اب ان سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں ڈائیلاگ کریں گی۔ پھر ان پر عملدرآمد بھی کریں گی۔ جو پارٹیاں خود اپنے منشور، اپنے آئین پر عمل نہ کرتی ہوں، اپنے کارکنوں کی بات نہ سنتی ہوں، وہ ڈائیلاگ کی اہمیت کو کہاں تسلیم کریں گی۔
آج لاہور میں ہونے والے جلسے کو فیصلہ کن قرار دیا جارہا ہے۔ جلسہ یقیناً پُر ہجوم ہوگا۔ اتنی محنت کی گئی ہے ۔ کتنے جلسے ریلیاں ہوئی ہیں، اس ایک جلسے کے لیے لیکن نیا پیغام کیا ہوگا۔ استعفے دینے کا دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔ لانگ مارچ ہوگا۔ دھرنا ہوگا۔ پہلے مولانا فضل الرحمٰن اپنے ڈنڈا بردار وردی پوشوں کے ساتھ اسلام آباد کا گھیراؤ کرچکے ہیں۔پھر نہ جانے کس کی یقین دہانی پر وہ اپنے خیمے اکھاڑ کر عمران خان کا استعفیٰ لیے بغیر چلے گئے۔ کچھ سال پہلے عمران خان بھی نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر دھرنا ختم کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس وقت بھی کروڑوں خرچ ہوئے۔ لوگوں کے لاکھوں کام کے گھنٹے ان دھرنوں کی نذرہوئے۔
اب کیا کیا منظر نامے ہوسکتے ہیں۔ زیادہ توقع یہی ہے کہ استعفوں کی بیل تو منڈھے نہیں چڑھے گی۔پی پی پی سندھ حکومت سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔ لانگ مارچ۔ اور دارُالحکومت کا گھیراؤ کتنے دن چل سکتا ہے۔ بالفرض اگر عمران حکومت ختم بھی ہوجاتی ہے تو اس سے عوام اور جمہوریت کو نقصان ہی ہوگا۔ جتنے منصوبے اور اسکیمیں اس حکومت نے شروع کر رکھی ہیں وہ تعطل کا شکار ہوجائیں گی۔ ایک سال کورونا کی نذر ہوگیا ہے۔2021انتظامی تبدیلیوں کی بھینٹ چڑھ کر معیشت اور استحکام کو متزلزل کردے گا۔ مہنگائی اور بڑھے گی۔ یہ خواہش امریکہ اور بھارت کی تو ہوسکتی ہے ہمارے دوست چین کی نہیں ۔ وہ تو سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پاکستان میں امن و امان اور استحکام چاہتا ہے۔ پاکستان کی فوج سی پیک کی محافظ بھی ہے اور شراکت دار بھی۔ وہ بھی کبھی نہیں چاہے گی کہ اس مرحلے پر ملک میں بد امنی ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی بھی ملک میں بد امنی نہیں چاہے گی۔ صرف میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان میں عدم تحفظ اور افراتفری موزوں لگ سکتی ہے۔ یہ جب بر سر اقتدار نہ ہوں تو انہیں اپوزیشن کی حیثیت سے کردار ادا کرنا آتا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کردار میں اپنے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کردار بھی اگر سرکاری خرچ پر ہو تو جی جان سے اداکیا جاسکتا ہے۔
حکومت کو بھی عوام کی فکر نہیں ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس تجویز نہیں دے رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام دیہی اور شہری ،دونوں باشعور ہیں۔ انہیں کنٹرول خود سنبھالنا ہوگا۔ مسائل ان کے ہیں ۔ مسائل کی سنگینی کے کرب میں بھی وہی مبتلا ہیں۔ انہیں خود آپس میں مل کر سسٹم کو درست کرنا ہوگا۔ بہت سے ملکوں میں یہ تجربات کیے گئے ہیں۔ صارفین کی مزاحمت سے مارکیٹ کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ میں اس پر کچھ تحقیق کررہا ہوں۔ آپ بھی آپس میں مشورہ کریں۔ اس پر آئندہ نشست میں گفتگو کرتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔