15 دسمبر ، 2020
مداری اور مجمع، تماشے اور تماش بین میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ تو اک ایسا دلچسپ اور زندہ دل معاشرہ ہے جہاں چنگ چی اور سائیکل کی ٹکر ہو جائے تو سو پچاس غیور باشعور اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
یہ تو پھر منجھے ہوئے مالدار سیاستدانوں کا شو تھا جس میں کیریکٹر ایکٹر اور چاکلیٹ ہیرو سے لے کر ملکۂ جذبات تک سبھی بہترین پرفارمینس دے رہے تھے۔ کس ایم این اے، ایم پی اے ٹائپ کی مجال تھی کہ تن من دھن سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرتا۔نہ میں عمران خان کے جھوٹے وعدوں کو جھٹلا سکتا ہوں نہ دو مین سٹریم سیاسی خاندانوں کی بھیانک کرپشن کو نظر انداز کر سکتا ہوں لیکن یہ تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ ’’شو‘‘ اگر سپر ہٹ نہ تھا تو فلاپ بھی نہیں تھا۔
ماضی میں آج کی اپوزیشن کی بدترین کارکردگی اور موجودہ حکومت کے مسلسل کنفیوژن، مہنگائی اور دیگر عوامل کے بعد اگر ’’شو‘‘ اس سے بھی ذرا متاثر کن ہوتا تو مجھے حیرت نہ ہوتی لیکن چلو عزت رہ گئی۔ہر بندے کی اپنی اپنی پسند نا پسند اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ مجھے جن چند باتوں نے انسپائر کیا، وہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات ’’شو‘‘ سے پہلے ایاز صادق کے گھر کھانا جس میں دیسی گھی میں تیار کی گئی دیسی مرغیاں مولانا کی فرمائش پر شامل کی گئیں۔ میں نے ٹی وی پر یہ خبر انتہائی دلچسپی سے سنی کہ کھانا ’’کھلنے‘‘ پر ن لیگیوں نے خوراک پر اس طرح یلغار کی کہ پیپلز پارٹی کے جیالے نہ صرف منہ دیکھتے رہ گئے بلکہ زیادہ تر بھوکے بھی رہ گئے تو میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہی ’’کھانا‘‘ تو ن لیگ، پیپلز پارٹی کے درمیان اصل رولا اور مسئلہ ہے۔
لڑتے بھی ’’کھانے‘‘ پر ہیں اور ان کے درمیان صلح صفائی بھی ملکی وسائل ’’کھانے‘‘ پر ہی ہوتی ہے۔ دو سال پلس سے ملکی وسائل ان کی بے رحم دسترس سے دور ہیں جس کی نتیجہ میں ان کے درمیان دوریاں ختم اور نزدیکیاں شروع ہیں۔ ﷲ نہ کرے کل کلاں اگر پھر ان کو موقع مل گیا تو دنیا دیکھے گی کہ نیولے اور ناگن کی جنگ پھر عروج پر ہو گی۔
’’کھانے‘‘ اور جیالوں کے بھوکا رہ جانے، مولانا کا دیسی مرغیوں سے ’’اظہار یک جہتی‘‘ کے علاوہ مجھے بلاول اس وقت بہت اچھا لگا جب اس نے جلسۂ عام میں جہانگیر بدر مرحوم و مغفور کو یاد کرتے ہوئے اس کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ جہانگیر بدر مرحوم کے بچے بالخصوص علی بدر مجھے بہت ہی عزیز ہے کہ کئی اعتبار سے باپ کا رپلیکا ہے۔ سامنے بیٹھا ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جے بی سے باتیں کر رہا ہوں۔
چند ہفتے پہلے علی بدر مجھے میری اور اپنے پاپا کی تقریباً 45,40سال پرانی تصویر فریم میں جکڑ کے دے گیا جب دونوں آتش جوان تھے۔ اب ایسے سر پھرے سرفروش با وفا سیاست میں ڈھونڈے نہیں ملتے۔اس ’’شو‘‘ کی تیسری ہائی لائٹ کا تعلق بھی یونیورسٹی کے زمانے سے تھا۔ میرا اشارہ ’’باغی‘‘ اور ’’اک بہادر آدمی جاوید ہاشمی کی بے بسی کی طرف ہے۔
گوجرانوالہ کے جلسہ سے لے کر مینار پاکستان تک جاوید ہاشمی کو مسلسل نظر انداز کئے جانے پر اس سفاک سیاست سے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔چڑھتے سورج کی پجاری دنیایہ ہماری نہ تمہاری دنیا’’شیر‘‘ بوڑھا اور بیمار ہو گیا لیکن لیڈر شپ تو ماشاء ﷲ جوان اور صحت مند ہے جو اپنے اتنے سینئر شخص کو زبانی کلامی پروٹوکول بھی نہ دے سکی تو میں اپنے بچپن کے دوست سابق صدر سٹوڈنٹس یونین پنجاب یونیورسٹی حفیظ خان سے درخواست کروں گا کہ اپنے سابق سیکرٹری جنرل کو سمجھائیں کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں اور جو اپنی عزت نہ کرے، کوئی اس کی عزت نہیں کرتا کہ’’جہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں‘‘عزت سادات جتنی بچ رہی ہے، اسے ہی بچا لو تو بڑی بات ہے۔
میں نے شروع میں عرض کر دیا تھا کہ پی ڈی ایم کا یہ شو نہ سپر ہٹ تھا نہ بالکل فلاپ۔ رہ گیا ’’سردی سکول آف تھاٹ‘‘ تو بھائی! اگر ورکر سچ مچ موبلائز، موٹی ویٹ ہو تو سردی کیا ژالہ باری بھی اس کا رستہ نہیں روک سکتی لیکن شاید عمومی شعور کا گراف واقعی بلند ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
عوام ان کے اقتدار کی مشین کا پٹرول بننے کو اس طرح ہرگز تیار نہیں جس طرح ماضی میں ہوتے تھے۔ گھٹیا ترین آئی کیو کو بھی یہ بات تو سمجھ آ ہی جانی چاہئے کہ یہ کیسے ’’نظریاتی اور انقلابی‘‘ ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے، بھائی، کزن اور دیگر تو انگلینڈ میں محفوظ و مفرور کر رکھے ہیں اور لوگوں کی اولادوں کو اقتدار کی فرنس میں جھونکنا چاہتے ہیں۔آخر پہ محمود اچکزئی کا انگریزوں کو سپورٹ کرنے پر لاہوریوں سے گلہ شکوہ تو صاحب! یہ سکھ راج کا ری ایکشن تھا اور یہ بھی بتائیں کہ بلوچستان میں گورے صاحب کی بگھی میں کون کون سے سردار گھوڑوں کی جگہ جتے تھے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔