Time 20 دسمبر ، 2020
بلاگ

نہلے پہ دہلے کی سیاست

فوٹو: فائل

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے 31 جنوری تک وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں یکم فروری 2021 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا دینے کا چیلنج کیا تو عمران خان صاحب نے اُن کے نہلے پہ اپنا دہلا دے مارا اور سینیٹ کے الیکشن کی تاریخ ایک ماہ پہلے (یعنی 11فروری کے فوراً بعد) فکس کرنے کا اعلان کردیا۔ 

بس پھر کیا تھا، اپوزیشن کو لینے کے دینے پڑ گئے، کیا تو اِس کا ارادہ سینیٹ کے انتخابات ملتوی کرانے کا تھا اور کیا اب سینیٹ کا انتخاب اس کے گلے پڑ گیا ہے، قانونی ماہرین اِس پر متفق ہیں کہ آدھی سینیٹ کی مدت پوری ہونے کے ایک ماہ کے اندر اِس کے انتخابات ہو سکتے ہیں لیکن اِس فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہے، جسے لے کر اپوزیشن وزیراعظم کے لتے لینے چل پڑی۔ 

بھلا خان صاحب سے کوئی پوچھے کہ سینیٹ کے الیکشن ہاتھ کھڑا کروا کر کروانے کی بےپر کی اُنہیں کس نے سمجھائی۔ جب ٹھٹھہ لگا تو بات کھلے بیلٹ پر جا پہنچی اور معاملہ ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ میں لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ 

پھر کیا تھا، اپوزیشن کو حکومت کی دھنائی کرنے کا خوب موقع ہاتھ آیا، ووٹ کی رازداری کا آفاقی اصول اور اس کی تقدیس پہ اصرار اب کوئی کیسے کرے جب قانون ساز ووٹ کی منڈی میں بکاؤ مال بن جائیں۔ 

خود تحریک انصاف کے بیس کے قریب ایم پی اے خیبرپختونخوا میں ووٹ بیچ کر پارٹی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اور جب میرے عزیز دوست حاصل بزنجو موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے اکثریت کے باوجود چیئرمین بنتے بنتے رہ گئے تھے تو معلوم پڑا کہ کس طرح ایک درجن کے قریب معزز سینیٹرز تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے کے باوجود منحرف ہوگئے تھے۔ 

اخلاقی جواز پہ چیئرمین مستعفی ہوئے نہ اپوزیشن کے منحرف سینیٹرز کو کوئی شرم آئی، اب ووٹ کی عزت اسمبلیوں کے اراکین کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں تو ووٹ کو صیغہ راز میں رکھنے کے آئینی تقاضے پہ اصرار کا اخلاقی جواز کوئی کس منہ سے پیش کرے۔ 

الیکشن کمیشن بھی دباؤ میں آگیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کی تاریخ رکھے تو کب؟ جلدی رکھتا ہے تو اپوزیشن ناراض، مارچ کے دوسرے ہفتے میں رکھتا ہے تو حکومت خفا، معاملہ کچھ زیادہ ہی ڈرامائی صورت اختیار کرگیا جب عمران خان صاحب نے اپوزیشن کو استعفوں پہ اُکساتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات بروقت کروانے پہ اصرار کیا۔

یقیناً بھاری تعداد میں استعفوں کے باوجود سینیٹ کا انتخابی کالج پھر بھی برقرار رہتا ہے  اور خان صاحب کم از کم تین صوبوں سے پورے کے پورے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کروا سکتے ہیں اور اس میں ایمپائر کی انگلی اٹھوانے کی حزیمت بھی نہیں اُٹھانا پڑے گی لیکن ایسی بلامقابلہ سینیٹ کے پلے کسی طرح کا اخلاقی جواز نہیں بچے گا۔ 

طریقہ انتخاب پر سپریم کورٹ سے رجوع بھی مقننہ کے استحقاق سے راہ فرار ہے، آئین اس پر واضح ہے اور آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت میسر نہیں تو سپریم کورٹ پہ قانون سازی کا بوجھ ڈالنے کی چالاکی آخر کس نورتن نے سُجھائی ، عجیب سیاسی تماشا لگا ہے!

پاکستانی وفاق قومی اکائیوں کے مابین ایک نہایت نازک رشتہ اور میثاق ہے جو ملک ٹوٹنے پہ ہی وجود میں آسکااور 1973کے آئین پہ اتفاق ہو سکا۔ پھر 1973سے 2011تک صوبائی خودمختاری کی یہ دریہ مٹی پلید ہونے کے بعد تمام جماعتیں اٹھارہویں ترمیم پر متفق ہو سکیں جس پہ مرکزیت پسند قوتیں بہت ہی سیخ پاہیں کہ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کوئی سبق نہ لے پائیں۔

 وفاق اور وفاقی اکائیوں کا منتخب ادارہ صرف سینیٹ ہے جو محض ایک مجہول ادارہ بن کے رہ گیا ہے یا پھر موقع پرستوں، خوشامدیوں اور ارب پتیوں کا اجتماع۔

ایک حقیقی اور شراکتی وفاق میں سینیٹ کو بہت ہی طاقتور اور قومی اکائیوں کی منشاؤں کا پرتو ہونا چاہیے جبکہ موجودہ سینیٹ اس کا عشر عشیر ہی نہیں، یہ صرف نان الیکٹبلز کی انجمن بن کے رہ گیا ہے۔ 

میرے خیال میں اور بہت سے انتخابی ماہرین کی رائے میں سینیٹ کے براہ راست انتخاب کا طریقہ لانے کی ضرورت ہے، اگر سینیٹ کو حقیقی اور وفاقی اعتبار سے مقتدر ادارہ بنانا ہے تو اس کا براہ راست انتخاب ہونا چاہیے کیوں نہ سینیٹ کی نشستیں دو گنی کردی جائیں اور سرائیکی صوبے کے قیام کے ساتھ ہی ایک حقیقی نمائندہ سینیٹ تشکیل دی جائے جسے مالیاتی امور سمیت تمام آئینی عہدوں بشمول عدلیہ، افواج کے سپہ سالاران اور وفاقی اداروں کے انتظامات اور تعیناتیوں پہ کلی اختیار دیا جائے۔ 

اس کی کمیٹیوں کو بااختیار کرکے اس کے سامنے تمام وفاقی اداروں کو جواب دہ بنایا جائے، اگر ایسا کیا جائے تو کسی صوبے کو کوئی شکایت نہیں رہے گی اور ہر کسی کا احساس محرومی جاتا رہے گا، اس ضمن میں امریکی سینیٹ کے ماڈل سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وفاقی سطح پہ اس تبدیلی کے ساتھ مقامی حکومتوں کے اختیارات کو بڑھانے اور عوام کی مقامی سطح پہ اپنے معاملات چلانے میں بھرپور شرکت کا اہتمام بھی ایک بنیادی جمہوری تقاضہ ہے، اِس کے لیے بھی ایک بڑی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے تحت ایک تیسری فہرست آئین میں شامل کرنا ہوگی کہ مقامی و ضلعی حکومتوں کے اختیارات کیا ہوں گے۔ 

جس طرح صوبوں کے لیے مالیاتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، اِسی طرح صوبائی سطح پہ مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اضلاع میں محصولات کی تقسیم کا بندوبست کرے اور صوبائی سطح پہ مقامی حکومتوں کے قوانین کے لئے آئینی طوپر رہنما اصول وضع کیے جائیں۔

بات چلی تھی اپوزیشن کے نہلے پہ اور عمران خان کے دہلے کی، اب خان صاحب نے ایک اور چیلنج دے دیا ہے کہ اپوزیشن اسلام آباد دھرنا دینے آئے، اس کی مدد کی جائے گی اور اگر وہ ہفتے بھر کا دھرنا مار کے دکھادے تو وہ مستعفی ہونے پہ غور کر سکتے ہیں۔ 

جانے کیوں ہمارے وزیراعظم آبیل مجھے مار پہ تلے بیٹھے ہیں، اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اپوزیشن ہفتہ بھر کیا مہینہ بھر دھرنا دے سکتی ہے، پھر وہ بھی اپوزیشن کو آخر اشتعال دلانے پہ کیوں تلے ہیں۔

 کیا وہ واقعی حکومت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ جان خلاصی کا کوئی راستہ ڈھونڈ رہے ہیں، اپوزیشن تو پہلے ہی دھرنا مارنے پہ تلی بیٹھی ہے اور اگر اس کے استعفوں کو ٹالنا ہے تو پھر اسمبلی میں تبدیلی کی راہ کھولنے کیلئے مقتدرہ کو اسے جگہ دینے میں کیا تامل ہوگا؟ 

خان صاحب شاید صحیح سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن ان کے اور مقتدرہ کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتی ہے اور اگر ایسے ہو جاتا ہے تو پھر اسمبلی کے اندر سے تبدیلی کے راستے کھل سکتے ہیں، جس کیلئے شاید عمران خان خود کو تیار کررہے ہیں۔ 

اگر حکومت کرنے کے کانٹوں کا تاج آدھی مدت کے لیے اپوزیشن کے سرپر رکھا گیا تو بہت سی بازیاں پلٹ سکتی ہیں۔ قومی اتفاق رائے سے ضروری آئینی و اداراتی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ یا پھر ایک اور ہنگامہ خیز دور جس میں کپتان سڑکوں پہ ہوگا اور تماشے کا تماشہ لگے گا۔ آخر کب تک سیاست بچوں کا کھیل بنی رہے گی اور مقتدرہ سیاستدانوں کا تماشہ بنائے رکھے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔