30 دسمبر ، 2020
’’کورونا نے دراصل میرے دماغ پر حملہ کیا تھا اور اُس حوالے سے میں نے پہلے کچھ سنا تھا اور نہ سوچا تھا، کئی گھنٹوں تک، میں بات نہ کر پایا، سوچ بھی نہ پایا، میں اپنے الفاظ کھو بیٹھا، یادداشت چلی گئی، شدید پیاس لگ رہی تھی لیکن میرے منہ سے ’’پانی‘‘ لفظ تک نہیں نکل پا رہا تھا، بعد میں مجھے اہل خانہ نے بتایا کہ میں اپنا ہاتھ اور انگلیاں ہلا رہا تھا۔
ڈاکٹرز کے لیے بھی یہ ایک عجیب صورتحال تھی، تمام میڈیکل رپورٹس درست تھیں لیکن کورونا نے مجھ پر عجیب طرح سے حملہ کیا تھا، میری چھوٹی بیٹی نے کہا، بابا درود شریف پڑھیں، میری بیٹی نے پہلی مرتبہ خود میرے لیے درود شریف پڑھا اور اُس کے بعد میں نے درود شریف پڑھنا شروع کیا اور ساتھ ہی دیگر دعائیں بھی، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ الحمدللہ میں نے دعائیں پڑھتے وقت کوئی غلطی نہیں کی۔
یہی وہ موقع تھا جب میں نے کورونا کے اپنے دماغ اور نظامِ اعصاب پر جان لیوا حملے سے ریکوری شروع کی، الحمدللہ صرف 24؍گھنٹوں میں، میری یادداشت، ذہنی چوکسی یعنی ہر چیز تقریباً نارمل ہو گئی۔
مجھے گھر منتقل کر دیا گیا اور ساتھ ہی دوائیں بھی دی گئیں لیکن کورونا وائرس کے پاس میرے لیے مزید جان لیوا منصوبہ موجود تھا، میں دوائیں لے رہا تھا، اُن میں سے زیادہ تر دوائیں انجکشن کے ذریعے دی جا رہی تھیں لیکن اچانک ہی بعد میں کورونا نے میرے پھیپھڑوں پر حملہ کر دیا، میں کھانس رہا تھا، اِس لیے ڈاکٹر کے پاس پہنچا جنہوں نے ایکسرے کے بعد کچھ ٹیسٹ کیے اور مجھے اسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور چوبیس گھنٹے آکسیجن لگائی گئی۔
اِس مرتبہ مجھے سانس کی نالی میں ہونے والی سوزش (لوئر ریسپائریٹری ٹریکٹ انفیکشن، ایکیوٹ وائرل نمونیا) ہو گئی تھی۔
اسپتال میں ایک ہفتے تک داخل رہنے اور انجیکشنز (برینولا پاس کرنے کے لیے عملاً میری ہر نبض میں سوراخ کیا گیا تھا) کے ذریعے دوائیں لینے کے بعد دو دن قبل مجھے اسپتال سے رخصت ملی، اب میں تقریباً 25؍گولیاں روزانہ لے رہا ہوں۔
اِس وقت بھی میں آکسیجن سپورٹ پر ہوں اور الحمدللہ خدا پاک کی مہربانی سے روبہ صحت ہوں جس کے لیے کئی لوگوں نے دعائیں بھی کی ہیں لیکن میرا یہ سب لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ خدارا کورونا کو معمولی نہ سمجھیں، خدا سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس سنگین بیماری سے بچائے، آمین!“
یہ ہمارے محترم بھائی انصار عباسی صاحب کے گزشتہ کالم کا ایک اقتباس ہے جو اُنہوں نے کورونا کی اذیت سے گزرنے کے بعد ایسے عالم میں لکھا ہے کہ اب بھی اُنہیں آکسیجن کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔
اُن کے معالج ڈاکٹر شازلی منظور، میری والدہ کے معالج ہونے کے علاوہ بھائیوں کی مانند ہیں، کورونا نے حالیہ دنوں میں دو عزیز صحافی بھائیوں ارشد وحید چوہدری اور طارق محمود ملک کو ہم سے چھین لیا۔
ہمارے ایک اور بھائی اور اینکر عادل شاہزیب اور اُن کے تمام اہلِ خانہ بھی بڑی آزمائش سے گزرے۔ کورونا کتنی بڑی وبا اور مصیبت ہے؟ اِس کا اندازہ ہمارے اِن چند صحافیوں کی مثالوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی کو ہم اہلِ صحافت پر یقین نہیں تو وہ ممتاز مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب کی وہ ویڈیو ملاحظہ کرلیں جو اُنہوں نے کورونا سے صحتیابی کے بعد ریکارڈ کیا ہے۔
میں خود ڈاکٹر ہوں اور نہ طب کی دنیا سے واقف لیکن اسلام آباد کے ڈاکٹر شازلی منظور اور ڈاکٹر غلام صابر جو ہزاروں مریضوں کا علاج کر چکے اور کررہے ہیں، سے مسلسل رابطہ رہتا ہے، اِسی طرح ملک کے دیگر ماہرین سے بھی رابطہ ہے جبکہ صحت کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سے بھی ہر ہفتے بات ہوتی رہتی ہے۔
این سی او سی کی اپڈیٹس روزانہ کی بنیاد پر ملتی ہیں اور اِن سب معلومات کا نچوڑ یہ ہے کہ کورونا پہلے سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوکر پاکستان پر حملہ آور ہواہے۔
برطانیہ میں نئی شکل اختیار کرنے والا وائرس بھی پاکستان میں گھس آیا ہے لیکن بدقسمتی سے اب کی بار حکومت نے عوام کو مکمل طور پر کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور چونکہ حکومت نےاِس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تو اپوزیشن بھی جواب میں اپنے جلسے جاری رکھے ہوئے ہے۔
پچھلی لہر گرمی کے موسم میں آئی تھی اور وائرس کم خطرناک تھا تو حکومت نے لاک ڈائون بھی کیا، کسی حد تک میڈیا بھی آگاہی مہم میں حصہ لے رہا تھا لیکن اب کی بار جب سردی بھی شدید ہے اور وائرس بھی زیادہ خطرناک ہے تو یہ معاملہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
پچھلی مرتبہ مساجد تک کو تالے لگ گئے تھے لیکن اب کی بار جلسوں کے پنڈال بھرے ہیں۔ حکومت کی غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ نہ صرف خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے نصف درجن افراد کی وفات اور ملک میں نمونیا اور فلو کی ویکسین کی عدم موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ ویکسین کورونا کا علاج نہیں ہے لیکن چونکہ کورونا سے زیادہ نمونیا کا خطرہ ہوتا ہے یا پھر بخار کی شدید قسمیں جنم لے سکتی ہیں، تو یہ ویکسین کسی حد تک معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہر سال حکومتیں اگست ستمبر کے مہینے میں اِس کی منظوری دے کر مختلف امپورٹرز کے ذریعے آرڈر دیتی تھیں لیکن اب کی بار تبدیلی سرکار ایسا کرنا بھول گئی جس کی وجہ سے اِس وقت ملک میں اِس ویکسین اور بالخصوص فلو ویکسین کا ملنا ناممکن ہے۔ یہی معاملہ دیگر ویکسینز اور جان بچانے والی ادویات کا ہے جبکہ عام ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
اِسی طرح دنیا کی کم و بیش ہر حکومت نے کورونا کی ویکسین کے آرڈر دے رکھے ہیں لیکن سونامی سرکار آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپائی کہ ہم نے کس ملک سے کونسی ویکسین منگوانی ہے؟ اِس تناظر میں عوام سے گزارش ہے کہ وہ حکومتی رویے کو دیکھ کر کورونا کو غیرسنجیدہ نہ لیں۔ حکومت سے کوئی توقع نہ رکھیں، رہنمائی کی، مناسب فیصلوں اور نہ علاج کی۔ خود احتیاط کریں۔
شادیاں اگر موخر نہیں ہو سکتیں تو انہیں صرف خاندان کے خاص افراد تک محدود رکھیں۔ ماسک پہننے میں رتی بھر کوتاہی نہ کریں۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں ہاتھ ملانے، گلے ملنے سے گریز کریں۔
مریضوں اور عمر رسیدہ افراد کا خاص خیال رکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سب اللہ کے حضور سر بسجود ہوں کہ وہ ہماری قوم اور پوری دنیا کو اس وبا سے نجات دلادے اور جو بیمار ہیں ان کو شفا نصیب کرے۔ آمین!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔