کراچی کی بدقسمتی

فائل:فوٹو

بد قسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کے ستارے شروع ہی سے آپس میں نہیں ملے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔سب سے پہلے بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کےدور میں اردو اور سندھی زبانیں آمنے سامنے آئیں۔ مشہور مصرعہ ہےمرحوم رئیس امروہوی کا’’ اردو کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلےـ‘‘ 

پھر پاکستان کے واحد صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ ہوا اور کراچی کے نوجوانوں کی نوکریوں پر پہرا بٹھا دیا گیا۔ جو 10 سال کے لئے تھا مگر آج تک جاری ہے ۔اس کے خلاف MQMمیدان میں آئی اور پوری مہاجر برادری نے اس کا بھر پور ساتھ دیا توبظاہر مہاجر کاز بھی درپردہ مہاجروں کے مفادات کا سودا کرتی گئی اور ایک ایک کر کے کراچی کے ادارے سندھ کے ہاتھوں فروخت ہوتے گئے.

 پہلے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی کے ڈی اے سندھ SBCAبنا ، کراچی روڈ اتھارٹی SRTبنا۔ تمام ٹیکس کراچی کو ملتے مگر وہ سندھ کے کھاتے میں جاتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر ادارہ کراچی سے ہتھیاکر سندھ انتظامیہ کو دے دیا گیا۔ ایم کیو ایم مہاجروں کی واحداسٹیک ہولڈر تھی اور الطاف حسین اکیلے مہاجروں کے مفادات سے کھیلتے رہے۔ کراچی والوں کی بے چینی بڑھتی گئی ،اب مہاجروں نے نئی ابھرتی ہوئی پاکستان تحریک انصاف پر بھروسہ کیا کہ بقول وزیر اعظم پاکستان عمران خان میںکراچی والوں کو تنہا نہیں چھوڑوں گا ،مگرڈھائی سال بعد اب دونوں اسٹیک ہولڈر اکھٹے بیٹھ کر کراچی والوں کو صرف وعدوں پر بہلا رہے ہیں ۔حال ہی میں سندھ گورنمنٹ نے سندھ کمیشن کے ایک ہی گائوں سے 100آدمیوں کو بھرتی کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ’’ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان ‘‘ یعنی کراچی کو تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت اس شہر کے لئے1100ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر دیا تھا اور یہ نوید سنائی تھی کہ اس پیکیج کے تمام منصوبے آئندہ 3 سال میں مکمل کئے جائیں گے اور کراچی کے سار ے بڑے مسائل حل ہو جائیں گے۔اس سے پہلے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کیلئے802 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا اور 2 دن کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے کراچی آکر 1100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیاتھا۔3سال میں 3 مرحلوں میں اگر 1100 ارب روپے کے تمام منصوبے مکمل کرنے ہیں تو اس کیلئے ہر سال 366ارب روپے درکار ہوں گے۔ 

رواں مالی سال کے دوران 802 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کیلئے سند ھ حکومت نے کراچی کے لئے صرف 31.99 ارب روپے مختص کئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) میں سے کراچی سمیت سندھ کے تمام منصوبوں کیلئے صرف 8.3ارب روپے مختص کئے گئے ہیںجو ابھی تک نہیں دیے گئے۔اب وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ میں کراچی آئوں گا اور مداوہ کروں گا۔ایم کیو ایم جو ہمیشہ کراچی کا سودا کرتی آئی ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہے اس کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا ہےکہ کیاوجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کراچی کی منتخب بلدیاتی حکومت کو پیکیج نہیں دیا؟

جب سے پی پی پی کی حکومت آئی ہے کراچی کی بدحالی بڑھتی جارہی ہے ۔ 20سال بعد ہونے والی مردم شماری نے رہی سہی کسر نکال دی ۔کہا تو جارہا تھا کہ فوج کی نگرانی میں مردم شماری ہوگی مگر اس مرتبہ بھی کراچی کی آبادی آدھی کردی گئی۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس شہر کی آبادی کسی طرح بھی 3کروڑ سے کم نہیں۔مگر سندھ کی آبادی کے 33فیصد یعنی 1کروڑ 49لاکھ تک محدود کردی کیونکہ صدر ایوب خان کے قانون 1959کے تحت مردم شماری کو خفیہ رکھنا لازمی ہے۔ اور اسی قانون کے تحت کوئی صوبہ مردم شماری کے نتائج کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کرسکتا مگرنادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی، حیدرآباد،سکھرکی 48فیصد آبادی بالغوں پر مشتمل ہے۔ سندھ حکومت اب صرف دکھانے کے لئے سندھ کی کل آبادی تسلیم نہیں کررہی تاکہ اُس پر کوئی شک نہ کرسکے۔ 

اگر صحیح مردم شماری کا نتیجہ آتا ہے تو سندھ میں اس وقت 60فیصد غیر سندھی یعنی اُردو ،پنجابی ،پشتون اور بلوچوں کی آبادی ہےمگر 2017کی مردم شماری کے مطابق اس کو ڈیڑھ کروڑظاہر کر کے اس کے حق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور اب بلدیاتی الیکشن نئی مردم شماری کی آڑ میں کئی سالوں تک ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے جن کا تعلق بھی اس شہر کراچی سے نہیں ہے کھلواڑ کرا کر ملتوی کیا جاتا رہے گا۔دیکھتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں کراچی کا میئر کہاں سے لایا جائے گا؟گویا اب یہی بچی کھچی ایم کیو ایم پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر مردم شماری کو تسلیم کر کے درپردہ الطاف حسین کے فارمولے پر عمل در آمد کر رہی ہے اور کوٹہ سسٹم کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نافد بھی کروادیا۔ک

ابینہ کے کسی بھی اجلاس میں 1100ارب روپے کے پیکج کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے 15اور ایم کیو ایم کے 6ایم این اے 2سینیٹرز بتائیں کہ کراچی والوں نے کیا صرف وزیر اعظم عمران خان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے ووٹ دیے تھے؟ پی پی پی نے بھی مردم شماری کے سلسلے میں MQMکے عہدیداران سے ملاقات کی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اتنے زخم دینے کے باوجود کیا کر تی ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔