12 جنوری ، 2021
فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اِن کے اجزائے ترکیبی میں ڈھٹائی زیادہ ہے یا جھوٹ؟ صرف چند اخباری سرخیاں دیکھ لیں۔
’’عدالتی فیصلے سے بےگناہ ثابت نہیں ہوئے، نواز شریف جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ سربراہ براڈ شیٹ
’’نواز شریف نے اثاثوں کی تحقیقات روکنے کیلئے رشوت کی پیشکش کی۔ شریف فیملی کو الزامات سے بری کرنے میں کوئی سچائی نہیں۔ شریف خاندان کے صرف برطانیہ نہیں، پوری دنیا میں اثاثے ہیں‘‘۔
’’مشرف نے 200افراد کے اثاثوں کا پتا لگانے کا کام سونپا تھا۔ براڈ شیٹ سے معاہدہ ختم کرنے کے پیچھے نواز شریف کا ہا تھ‘‘ سی ای او کاوی موساوی۔
جب تک سیاسی آنکھ مچولی اور SEE SAWکا یہ شیطانی کھیل ختم نہیں ہوتا، ملکی معیشت کی بوٹیاں نوچنے اور پڑچھے اتارنے کا یہ بےرحم تماشا ختم نہیں ہوگا۔ یہ بات سیلف میڈ قائداعظم ثانی کا کوئی پاکستانی سیاسی حریف نہیں براڈشیٹ کا سی ای او کر رہا ہے کہ ’’اس ’انقلابی و نظریاتی‘ خاندان کے اثاثے صرف برطانیہ نہیں، پوری دنیا میں موجود ہیں‘‘ تو پھر جنہیں سمجھ نہ آئے؟
اِس ’’خوشخبری‘‘ کو دو تین باتوں سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول وزیراعظم کا یہ تازہ ترین بیان کہ کرپشن جرم سمجھی ہی نہیں جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ 22کروڑ کی کرپشن بھی کوئی جرم ہے جس پر اندر کر دیا جائے۔ بات سو فیصد درست کہ یہ مائنڈ سیٹ مدتوں سے عام ہو چکا اور اس کرپشن کلچر کو آج ہم پورے اعتماد سے اپنا ’’وے آف لائف‘‘ قرار دے سکتے ہیں لیکن ایسا کرتے وقت ہمیں اتنا ضرور سوچنا ہو گا کہ ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ اور اس کا منطقی انجام کتنا بھیانک ہو گا؟ سچ تو یہ ہے کہ ’’منطقی انجام‘‘ کی اصطلاح تو میں روا روی میں ہی استعمال کر گیا ہوں کیونکہ یہ ملک، یہ معاشرہ منطقی انجام کی تاریک ترین سرنگ کے پہلے مرحلہ میں تو کب کا داخل ہو چکا۔ تل تل مرنے کا عمل تو کب سے شروع ہے جو لیکچروں، بھاشنوں، نصیحتوں، کالموں، بیانوں، وعظوں، اعلانوں، دعائوں سے ختم نہیں ہوگا۔ میں جو کچھ عرصہ سے کلپ رہا ہوں کہ کم از کم پندرہ سال کا روڈ میپ سامنے رکھ کر نجات کے سفر کا آغاز کرو ورنہ ’’بنائی جاتے ڈھائی جا‘‘ کا مکروہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے گا۔ آنے والی نسلیں تو پہلے ہی رقیبوں کے پاس گروی پڑی ہیں، اور کیا کیا کچھ لٹے گا تو ہوش آئے گا؟
مالی کرپشن صرف مالی تک ہی محدود نہیں رہا کرتی، یہ ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ جو میں مدتوں سے ماتم کناں ہوں کہ پاکستان کا اصل المیہ ’’اقتصادیات‘‘ کی ابتری نہیں، اخلاقیات کی بربادی ہے تو یہ اک پوری سائنس ہے۔ آج مورخہ 11جنوری جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، عطاء الحق قاسمی جیسے شگفتہ بیان کا کالم میرے سامنے ہے ’’فن کے نام پر گندگی کے ڈھیر!‘‘، اِس تحریر نے مجھے شل کرکے رکھ دیا ہے حالانکہ اِس میں میرے لئے کوئی بات نئی اور انوکھی نہیں بلکہ شاید ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ’’فن کے نام پر گندگی کے ڈھیر کتنے مقبول ہیں لیکن میرا مسئلہ، میرا سوال یہ ہے کہ ....کس کس کے نام پر گندگی کے ڈھیر موجود نہیں ہیں؟ اور ’’مقبول ‘‘ نہیں ہیں؟
کیا سیاست اور جمہوریت کے نام پر قدم قدم پہ گندگی کے مینار نہیں کھڑے؟
تعلیم کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟ انویسٹرز کو ایجوکیٹرز کہا اور سمجھا جاتا ہے جبکہ سرکاری اسکولوں کا سر پیر ہی نہیں، گوبر کے ڈھیر ہیں کیونکہ مویشی بندھے ہوتے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں کے اکثر ڈاکٹرز پرائیویٹ ہسپتالوں کیلئے کام کرتے ہیں۔
پولیس خود جرائم میں ملوث ہے ورنہ پولیس کا اک نابغہ وزیراعظم کے پاس یہ فلسفہ نہ بیچ سکتا کہ پولیس کو پولیسنگ کی ضرورت ہے۔
نہ دوا خالص، نہ غدا خالص، نہ دعا خالص، نہ ہوا خالص، نہ روا خالص، نہ قبا خالص کیونکہ ....
’’اک قبا اور بھی ہم زیر قبا رکھتے ہیں‘‘
اور یہ سب ’’مالی کرپشن‘‘ کی جائز و ناجائز اولادیں ہیں اور میں بخوبی جانتا ہوں کہ جہاں انسان ہوگا وہاں جرم بھی ہوگا اور گناہ بھی لیکن کینڈے اور موثر ترین کنٹرول میں ہو تو قابلِ فہم بھی ہے اور قابلِ برداشت بھی لیکن یہاں تو یہ سب کچھ وبا کی طرح پھیل چکا ہے بلکہ وبا بھی بری طرح شرما رہی ہے کیونکہ کورونا کا باپ بھی وہ کچھ نہیں کرسکتا جو کرپشن کر رہی ہے بلکہ کر چکی ہے۔ وسیم گوہر مرحوم نے لکھا تھا ’’حسن نثار کوبرے کے پھن سے لکھتا ہے‘‘ میں کہتا تھا عطاء قاسمی پھولوں کی شاخ سے لکھتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے پھولوں کی شاخ کو بھی کوبرے کے پھن میں تبدیل کر دیا تو سوچ لو ہمیں کیسی کیسی تبدیلی کا سامنا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔