14 جنوری ، 2021
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت سے استفسار کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات کیلئے تناسب کے تعین کا طریقہ کار قانون میں کیا ہے؟ خفیہ اور اوپن بیلٹ میں کیا فرق ہے؟
سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ ہے صدارتی ریفرنس اور ازخود نوٹس کے مقدمات میں اپیل کا حق نہیں ہوتا، عدالتوں کو ایسے معاملات میں بہت احتیاط سے چلنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پیپرز کےذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ آئین کی تشریح کا فورم پارلیمنٹ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے،سوال یہ بھی ہے ہم تشریح کیسے کریں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ آئین کی تشریح کا اختیار ہمیں حاصل ہے، یہی ان کے دلائل کا نچوڑہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں آئین خاموش ہو وہاں قانون کا اطلاق ہوگا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کا مقدمہ بھی یہی ہے، ہر ملک میں آئینی معاملات کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ ہوتی ہے یا پھر آئینی عدالت ہوتی ہے، ہماری سپریم کورٹ ہی آئینی عدالت ہے، الیکشن ایکٹ 2017 میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داریاں اور قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا طریقہ کار موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے باب 7 میں سینیٹ کا مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے، ان دونوں کا طریقہ کار ایک ہی ہے صرف اوپن بیلٹنگ میں بیلٹ پیپر کے پیچھے ووٹ ڈالنے والے نام لکھا ہوگا، اس کا مقصد یہ ہے معلوم کیا جا سکے کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔