مردہ قرار دی گئی خاتون کو خودکو زندہ ثابت کرنے میں 3 سال لگ گئے

فوٹو بشکریہ آڈیٹی سینٹرل

58 سالہ فرانسیسی خاتون کو سابقہ ملازم کے ساتھ ایک طویل عرصے سے جاری تنازع کے دوران عدالت کی جانب سے غلطی سے مردہ قرار دے دیا گیا جس کے بعد خاتون  خود کو زندہ ثابت کرنے کے لیے 3 سال سے کوششیں کررہی ہیں۔

فرانس کی شہری جین پاؤچین کو 2017 میں  سابقہ ملازمین کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنا پر لیبر کورٹ نے کو مردہ قرار دیا۔

مردہ  قرار دیے جانے کے بعد تین سالوں سے خاتون یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ زندہ سلامت ہیں۔

عدالتی فیصلے کے بعد پاؤچین اور ان کے سابق ملازمین کے درمیان ایک دہائی طویل مقدمہ تو ختم ہوگیا لیکن پاؤچین کی بطور شہری حیثیت کے خاتمے نے فرانسیسی خاتون کی زندگی تباہ کردی۔ 

فیصلے کے بعد خاتون کا سرکاری ریکارڈ ختم  کردیا گیا اور یہی نہیں بلکہ جین پاؤچین کو اپنا شناختی کارڈ ،ڈرائیونگ لائسنس ، میڈیکل انشورنس ، بینک اکاؤنٹ ، سب چیزوں سے ہاتھ دھونا پڑا جس کے بعد وہ خود کو اب مردہ ہی تصویر کررہی ہیں۔

 2000ء میں جین پاؤچین  کی کلیننگ کمپنی کو ایک بہت بڑا معاہدہ ختم ہونے پر اپنے کچھ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنا پڑا جس پر ایک ملازم کی جانب سے کمپنی  کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔

2004 میں عدالت نے پاؤچین کی کمپنی کو ملازمین کو نکالے جانے کے سبب 14 ہزار یورو ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا لیکن یہ فیصلہ چونکہ پاؤچین کے بجائے ان کی کمپنی کے خلاف تھا جس وجہ سے پاؤ چین کی جانب سے اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔

5 سال بعد سابق ملازم نے دوبارہ اپیل  دائر کرتے ہوئے  عدالت کو چین پاؤ کی موت کا یقین دلایا جس کے بعد عدالت  نے خاتون کو مردہ قرار دیتے ہوئےان کے شوہر اور بیٹے کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔

پاؤچین کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ایک پاگل کی کہانی ہےکیونکہ میں اس پر یقین نہیں کرسکتا تھا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی جج بغیر کسی سند کے کسی کو مردہ قرار دے گا، بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے سب نے اس پر یقین کیا حتیٰ کہ کسی نے چیک  بھی نہیں کیا۔ 

جین پاؤچین نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ جب میں اپنے وکیل سے ملی تو اس نے  بتایا کہ یہ معاملہ جلد ہوجائے گا کیونکہ ڈاکٹرز کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے کہ میں ابھی زندہ ہوں لیکن چونکہ عدالتی فیصلہ آچکا تھا لہٰذا صرف سرٹیفکیٹ کافی نہیں تھا۔

جین پاؤچین کے مطابق وہ آج تک باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں انہیں اپنی شناخت نہ ظاہر کرنی پڑجائے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ عدالت نے ان کی زندگی کاغذات پر ختم کردی۔