29 جنوری ، 2021
پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے سامنے فارن فنڈنگ کیس کے بارے جو واویلا کرنا تھا، کر لیا۔ کراچی میں اسرائیل نامنظور کا جو شوشہ چھوڑنا تھا، چھوڑ دیا۔ مریم نواز کا سفر الیکشن کمیشن کے سامنے ختم ہوا۔ بڑے مولانا صاحب کراچی میں حکومت کے خلاف اکیلے ہی گرجتے برستے رہے۔ مریم آئی نہ بلاول، گویا کہ پی ڈی ایم میں حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ نظریات کا فرق بھی کھل کر سامنے آرہا ہے۔
فاصلے ہیں کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، اب بات استعفوں سے لانگ مارچ کرتے کرتے وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنےکی طرف چل نکلی ہے۔
اِدھر کپتان ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا، پی ڈی ایم کو چاروں شانے چت کرنے کے بعد ڈٹ کر کھڑا ہے، اب اسے الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس کا خوف ہے نہ براڈشیٹ اسکینڈل سے کچھ لینا دینا۔ وہ بےخوف آگے بڑھتا چلا جارہا ہے۔
اُس کا اعتماد، حوصلہ قابلِ دید ہی نہیں قابلِ داد بھی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، کپتان ایک ایک کرکے سب سے کیسے نمٹتا ہے؟ وعدے کیسے پورے کرتا ہے اور کس کس طریقے سے ہمارے دکھ درد ختم کرتا ہے؟ آپ بس تھوڑا حوصلہ رکھئے، گھبرانا بالکل نہیں۔
اِس نئے پاکستان میں اب کوئی غریب زندہ بچے گا نہ کوئی بھوکا سونے کے قابل رہے گا۔ کوئی بےروزگار در در ٹھوکریں کھائے گا نہ کوئی گلی گلی کشکول اٹھائے پھرے گا۔ پی ڈی ایم کو کھڈے لائن لگانے کے بعد کپتان کا اعتماد اُس کے فیصلوں سے جھلک، چھلک، ڈھلک رہا ہے۔
اُس کے کڑے فیصلوں کا وقت اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کپتان نے 29ماہ سے ماضی کے نااہل چور، ڈاکو، لٹیرے حکمرانوں کا جو بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا، اب اپنے کندھوں سے اتار کر آپ کے کندھوں پر منتقل کررہا ہے۔ کپتان نے ماضی کے حکمرانوں کی نالائقیوں کا بوجھ اتارنے کے لئے صرف 29ماہ میں اڑھائی ٹریلین روپے کا مزید قرضہ ہی تو لیا ہے۔ آخر ماضی کے مقابلے میں 21فیصد زائد قرضہ لینے میں برائی ہی کیا ہے۔
آخر کسی نے تو ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے اور ڈوبتے، ڈولتے، ڈگمگاتے نئے پاکستان کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی اس سے بہتر کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟ کپتان نے کون سا انوکھا کام کیا ہے، کیا آپ خالی جیب، اپنا گھر چلانے کے لئے آس پڑوس سے تھوڑا بہت روٹی سالن نہیں مانگ لیتے۔
دوست احباب سے نت نئے حیلوں بہانوں سے قرض نہیں لے لیتے۔ اکثر تو قرض لے کر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آخر کسی نے تو یہ قرض اتارنا ہے۔ شکر کریں! آپ کو کپتان جیسا کوئی حکمران ملا ہے جو ماضی کے نااہل حکمرانوں کے قرض اتارنے کے لئے قرضوں پر قرض لئے جارہا ہے۔
یہ کپتان ہی کا کمال ہے ورنہ سر تا پا مقروض کو تو کوئی مزید قرض بھی نہیں دیتا۔
ماضی کے حکمرانوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اب آپ ہی دیکھئے نا کہ براڈشیٹ فراڈ میں کتنے بڑے بڑے کمیشن خور فراڈیئے ملوث ہیں اور ان فراڈیوں نے جس نئے انداز میں قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالا ہے، عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسے کیسے فراڈیے براڈشیٹ سے اربوں روپے کا کمیشن کھانے پہنچے لیکن کپتان کا اس معاملے سے کچھ بھی لینا دینا نہیں بس اتنا ہی کیا کہ شرافت سے خالی قومی خزانے سے اربوں روپے نکال کر براڈشیٹ کی خدمت میں پیش کر دیے ہیں اور قوم کو ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہونے دیا کہ ملکی معیشت یا غریب کی جیب پر اس کا کوئی برا اثر پڑا ہو۔ یہ کپتان ہی کی فہم و فراست ہے کہ بجلی کی قیمت میں تقریباً 2روپے فی یونٹ اضافہ کیا ہے ورنہ تو مشورہ دینے والوں نے 2روپے 18پیسے فی یونٹ بڑھانے کا کہا تھا۔
یہ کپتان کا احسانِ عظیم ہی تو ہے کہ 18پیسے یونٹ رعایت دے دی ورنہ ہم غریب تو مارے گئے تھے۔ کپتان کے فیصلے بڑے دلیرانہ اور حکمت سے بھرے ہیں۔ وہ کسی کی نہیں مانتا، حتیٰ کہ پٹرول کی قیمتوں میں تقریباً گیارہ روپے لٹر اضافے کی تجویز بھی یہ کہہ کر رد کردی کہ میں عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ یہ خدا ترسی ہی توہے کہ صرف دوہفتوں میںیکے بعد دیگرے پٹرول کی قیمت میں پونے پانچ روپے فی لٹر اضافے کی اجازت دے کر ہمیں فاقوں سے بچا لیا۔
کپتان کی حکمت و دانش تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ بڑا ذہین اور دور اندیش ہے۔ ہمیشہ سخت سے سخت ترین فیصلے بڑے بڑے بحرانوں میں کرنے کا ماہر ہے۔ یہی اس کی کامیابی کا واحد راز ہے ۔
وہ اپوزیشن کو ناکوں چنے بھی چبوا رہا ہے، ان کی چیخیں بھی نکلواتا ہے حتیٰ کہ ناک سے لکیریں بھی نکلوا رہا ہے وہ بڑے نڈر، بےباک فیصلے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے فیصلوں پر ڈٹ بھی جاتا ہے۔
براڈشیٹ کی شکل میں پڑنے والے عالمی ڈاکے کے ملزموں کو پکڑنے کی بجائے عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوا کر کہا جارہا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ محض اس لئے کرنا پڑا کہ مزید قرضے نہ لینے پڑیں۔ شاباش کپتان جی شاباش۔ آپ نے تو ایک اور قرض اتارو ملک سنوار مہم شروع کردی۔
ثاقب نثار تیرے جاں نثار پوچھتے ہیں کہ وہ ڈیم کاپیسہ کہاں گیا؟ اور یہ قرض اتارو، غریبمکاؤ مہم کا پیسہ کہاں جائے گا؟ کپتان نے غریب کو مفت چھت، روٹی دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ شہر شہر پناہ گاہیں بنا کر پُورا کر دیا ہے۔ یہ پناہ گاہیں اب آپ کی منتظر ہیں جہاں مفت بہترین کھانا، سونے کو آرام دہ گرم بستر میسر ہیں۔
شاید یہ پناہ گاہیں ہی ہمارا آخری ٹھکانہ ہیں جہاں بجلی کا بل دینا پڑتا ہے نہ کھانے کے پیسے اور گھر جیسا ماحول بھی بالکل مفت۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ایک انسان پناہ تو لے سکتا ہے لیکن وہ جو گھر میں بیٹھے بیوی بچے فاقوں کے ہاتھوں خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں ان کی فکر کھائے جارہی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔