05 فروری ، 2021
سندھ حکومت نے کراچی میں ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ملیر ایکسپریس وے جیسے میگا پروجیکٹ کا اعلان تو کیا ہے لیکن یہ منصوبہ کہیں ماحولیاتی آلودگی کا سبب تو نہیں بن جائے گا؟
ٹوٹی سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ ناپید، رکشوں، موٹر سائیکلوں کی بھرمار اور جگہ جگہ ٹریفک جام، یہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا منظر نامہ جسے کچھ بہتر بنانے کے لیے سندھ حکومت نے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 39 کلو میٹر طویل منصوبے کا بڑا حصہ شہر کے اُس مقام پر تعمیر ہو گا جو گرین بیلٹ بھی ہے اور ماحول کو معتدل رکھنے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتا ہے۔
دعویٰ تو یہ ہے کہ اس منصوبے سے عوام کو فائدہ ہوگا مگر ماہرین اس حوالے سے متفق نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سبزے کی جگہ کنکریٹ نے لی تو کراچی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔
کراچی اربن لیب کے اربن پلانر محمد توحید کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے دیکھیں تو ملیر کراچی کا آکسیجن حب اور موسم کو معتدل رکھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، زمین پر سبزہ جانچنے کا پیمانہ این ڈی وی انڈیکس بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔
39 کلومیٹر طویل ایکسپریس وے قیوم آباد جام صادق انٹرچینج سے شروع ہو کر کاٹھور انٹرچینج ایم نائن نیشنل ہائی وے پر اترے گا، اس کی راہ میں حائل تعمیرات پر لگے یہ سرخ نشان اس بات کی علامت ہیں کہ بہت جلد انہیں منہدم کر دیا جائے گا، یہ پریشانی ابھی سے مکینوں کے چہروں پر عیاں ہے۔
علاقہ مکینوں کے برعکس حکومت سندھ صرف ان ہی گوٹھوں کو تسلیم کرتی ہے جو گوٹھ آباد اسکیم کے تحت لیز ہیں اور ایسا صرف ایک گوٹھ ہے۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر ایم ای ڈبلیو کے مطابق 127 ایکٹر زرعی زمین منصوبے سے متاثر ہو گی۔
سندھ حکومت نے 27 ارب روپے کے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ڈھائی سال کی ڈیڈ لائن مقرر کر رکھی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس منصوبے کی افادیت اس کے لیے ادا کی جانے والی قیمت سے زیادہ ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ کراچی کے ٹریفک کے لیے گیم چینجرز نہیں تاہم اس سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔