14 فروری ، 2021
گزشتہ ہفتے پانچ فروری کو وزیراعظم عمران خان نے کوٹلی آزاد کشمیر میں خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کیلئے تیسرے آپشن کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیریوں کو آزاد رہنے یا پاکستان کے ساتھ رہنے کا حق دیں گے‘‘ان کے اس بیان پر ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا اگر ہم عمران خان کی طرح کشمیر پر بات کرتے تو سکیورٹی رسک بن جاتے۔ ظفر نگینہ پاکستان کے معروف صحافی اور ’’غازی علم دین شہید‘‘ سمیت کئی ایک کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کے کئی نجی ٹیلی وژن چینلز اور بعض یو ٹیوب چینلزپر بھی انہوں نے وزیر اعظم کے حالیہ بیان سمیت مجموعی طور پر کشمیر پر پاکستان کی پالیسی پر شدید تنقید کی ہے ۔ نگینہ صاحب ’’روزنامہ جنگ‘‘ سمیت دیگر کئی پاکستانی روزناموں کے ساتھ منسلک رہے ہیں، ان کا آبائی تعلق بھی کوٹلی آزاد کشمیر سے ہے ان کے والد پاکستان آرمی میں میجر تھے۔ نگینہ صاحب نے سب سے بڑا شکوہ جو کیا ہے وہ یہ کہ ہندوستان نے تو مقبوضہ وادی اور اس کے عوام کو گزشتہ سات دہائیوں سے محصور کر رکھا ہے، ان پرظلم کیا جاتا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے یعنی پانچ اگست 2019 سے جموں و کشمیر کی وہ آزاد حیثیت بھی ختم کردی جو انہیں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت خصوصی طور پر حاصل تھی، آزاد کشمیر میں اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن بہرحال وزیراعظم آزاد کشمیر یا صدر آزاد کشمیر کو وہ حیثیت حاصل نہیںجو ایک آزاد ریاست کے رہنمائوں کو ہونی چاہئے۔
ظفر اقبال نگینہ کے مطابق ہمارے وزیر اعظم کا اختیار ایک چیف سیکرٹری سے بھی کم کیوں ہے؟ ہمیں یوم یکجہتی کشمیر کے جھولے میں جھلا کر ہر سال پانچ فروری کو جذباتی تقاریر کر لی جاتی ہیں، پاکستان میں جو بھی سیاسی پارٹی برسراقتدار آتی ہے اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں اس کی پارٹی کا اقتدار ہونا چاہئے اور اسی جنونیت نے کشمیر کی اپنی سیاسی پارٹیوں کے وجود کو نگل لیا ہے بہت سے کشمیری سیاستدان پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو چکے ہیں ۔ نگینہ صاحب کا کہنا ہے کہ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ’’آئی جی‘‘ پولیس کی تعیناتی تک پاکستان پولیس فورس سے کی جاتی ہے، کیا آزاد کشمیر میں ایسا کوئی قابل افسر نہیں ہے جسے انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر تعینات کیا جاسکے؟آزاد کشمیر میں تعینات امور کشمیر کا وزیر ریاستی جماعتوں کے قائدین ار مختلف ایم این ایز کو اپنے دام میں رکھنے کی کوششوں میں لگارہتا ہے، ایسے ایسے لوگوں کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے جنہیں آزاد کشمیر کے اضلاع تک کا علم نہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے تمام تر اختیارات چیف سیکرٹری کے پاس ہوں؟
ظفر اقبال نگینہ کے شکوے اپنی جگہ لیکن وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان کی باریکیوں میں جایا جائے تو بہت سے تلخ سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بیان ہی نگینہ صاحب یا ان جیسے بہت سے کشمیریوں کی شکایات کو مہمیز دیتا ہے کہ حکومت پاکستان آزاد کشمیر کے صدر کوبھی ’’فضل الٰہی چودھری‘‘ جیسا صدر دیکھنا چاہتی ہے۔
قطع نظر اس شکوہ کے حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب سے ہندوستان نے آرٹیکل 370 کا نفاذ کرکے مقبوضہ وادی کی رہی سہی حیثیت کو بھی ختم کردیا ہے، اس کے بعد پاکستان میں بھی آزاد کشمیر کے لئے حکومتی سطح پر وہ جوش و جذبہ اور ولولہ انگیزی دیکھنے سننے کو نہیں ملتی، میں خود گزشتہ 28 سال سے لندن میں رہتے ہوئے اس رجحان کا شاہد ہوں کہ کشمیری لیڈر ہوں یا پاکستانی سبھی یہاں آ کر آزادیٔ کشمیر کے لئے زبانی جمع خرچ اوراپنی اپنی جماعتوں کے لئےحمایت یا چندہ اکٹھا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے،
بے شمار سیاسی و سماجی ونگ اپنی اپنی راگنی اور ذاتی ایجنڈے کے مطابق مسئلہ کشمیر کا نام لیتے ہیں ان کے اپنے اپنے مفادات کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں یہ جان کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، کیسے کیسے ناموں سے کمیٹیاں بناکر کشمیر کے نام پر جیبیں بھری جاتی ہیں، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ہمیں یہاں یہ بات عام سننے کو ملتی ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر برطانیہ کا نامکمل ایجنڈا ہے‘‘ لیکن کیا اب یہ بات کوئی راز ہے کہ آج تک برطانیہ کے ساتھ اپنی ’’شہ رگ‘‘ کا یہ معاملہ مکمل سنجیدگی سے کسی پاکستانی یا کشمیری حکومت نے اٹھایا ہی نہیں۔
اس سلسلہ میں ایک انتہائی شرمناک اور سنگین رجحان یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات پاکستانی میڈیا میں اس قسم کی خبریں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں کہ ’’برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کی گونج‘‘ یا ’’برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ‘‘ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم پر آواز اٹھا دی اور بھارت کے خلاف قرارداد پاس ہو گئی‘‘یا یہ کہ ’’ہندوستان آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی آزاد حیثیت بحال کرے، برطانوی پارلیمنٹ میں اجلاس‘‘ لیکن ان دعوئوں میں سچ صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان گنت تنظیمیں جو کشمیر کے نام پر موجود ہیں وہ دو چار چھ ارکان برطانوی پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ بلڈنگ کے کسی ایک کمیٹی روم میں بلا کر پندرہ بیس یا اس سے کچھ زیادہ لوگوں کا ایک اجلاس کرتی ہیں بلکہ یہ کمرہ بھی کسی ممبر پارلیمنٹ یا لارڈ نے بک کروایا ہوتا ہے۔
چنانچہ وہیں بیٹھ کر یہ تمام کارروائی ہوتی ہے اور پھر اس نشست کے منتظمین اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اپنی مرضی کا ’’شور‘‘ مچا کر اپنے مفاداتی فلسفہ کو تقویت پہنچاتے ہیں، ورنہ یہ برطانوی حکومت کانہ تو بیان ہوتا ہے نہ پالیسی۔ اصل پالیسی بیان برطانوی حکومت کی طرف سے اسی وقت سمجھا جائے گا اور سمجھا جانا چاہئے جب یہ بیان برطانیہ کے 650 ارکان پارلیمنٹ کے ہائوس آف کامنز والے روم سے آئے گا، کسی کمیٹی روم سے نہیں!!
حکومت ِپاکستان کے لئے یہ صورت حال لمحہ فکریہ تو ہے لیکن یہ معاملہ بھی انتہائی سنجیدہ اور فوری توجہ کا متقاضی ہے جس کی طرف ظفر اقبال نگینہ اشارہ کر رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم یا صدر کو ان کے مطابق عہدہ توقیر ملنی چاہئے، آزاد کشمیر کے 120 ارب روپے کے بجٹ میں کٹ نہیں لگنا چاہئے، آزاد کشمیر کی ریاستی سیاسی جماعتوں کوبھی اتنی ہی سیاسی آزادی ہونی چاہئے جتنی پاکستانی سیاسی جماعتوں کو ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔