15 فروری ، 2021
کیا واقعی تبدیلی آ گئی ہے؟ پاکستان میں پہلے تو کلرکوں اور غیرمراعات یافتہ ملازمین کا تنخواہیں اور الاؤنسز بڑھانے کیلیے سڑکوں پر نکلنا دیکھا تھا لیکن پہلی مرتبہ افسر شاہی کو اپنے حقوق کیلیے دھرنے دیتے اور احتجاج کرتے دیکھا ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں اس مرتبہ افسر شاہی نے بھی اپنا آئینی و قانونی حق سمجھ کر حکومت کو یہ باور کروایا ہے کہ تنخواہوں اور الائونسز میں بڑی تفریق موجود ہے جس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
حکومتی افسران نے سوشل میڈیا پر جاری کی جانے والی اپنی پریس ریلیزوں میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ تنخواہوں اور الاؤنسز کی اس عدم مساوات کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
مظاہرین افسروں نے ان پر لاٹھیاں برسانے اور آنسو گیس کے شیل پھینکنے والے پولیس ملازمین سے کہا کہ تمہارے لیے بھی 25فیصد الاؤنس کیلیے سڑکوں پر آئےہیں، ایک افسر نے ٹویٹ کیا ’’ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے‘‘۔
اب اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا وہ تفریق ہے کیا جس کے باعث پاکستان کا یہ طبقہ سڑکوں پر آیا؟ اگر صوبوں کے ساتھ وفاق کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت پنجاب سول سیکرٹریٹ میں کام کرنے والوں کو 150فیصد ایگزیکٹو الائونس مل رہا ہے جبکہ اسلام آباد میں یہ صفر ہے، پنجاب میں سیکرٹریٹ الانس 50فیصد ہے جو (RUNNING SALARY)پر ہے جبکہ اسلام آباد میں یہ الاؤنس BASIC SALARYپر ہے اور اس کی شرح بھی 20فیصد ہے۔
پنجاب میں یوٹیلٹی الاؤنس 6ہزار سے 40ہزار تک ہے جس میں سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے گریڈ 1سے 7تک کا 6ہزار، گریڈ 12تک کا 10ہزار، 12سے گریڈ16 کا 14ہزار، سیکشن افسر کا 15ہزار، ڈپٹی سیکرٹری کا 20اور ایڈیشنل سیکرٹری کا 25ہزار یوٹیلٹی الاؤنس ہے۔
اس کے برعکس اسلام آباد میں سیکرٹریٹ ملازمین کو کوئی یوٹیلٹی الائونس ملتا ہی نہیں، جنید عالم وٹو جن کا تعلق آفس مینجمنٹ گروپ سے ہے اور جو اس عدم مساوات پر افسروں کے نمائندہ بھی ہیں، کے مطابق سپریم کورٹ میں کام کرنے والے ڈرائیور کی تنخواہ 80ہزار اور سی ایس ایس کرکے گریڈ 17میں بھرتی ہو کر فیڈرل سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے کی تنخواہ 45ہزار ہے۔
حکومت نے سرکاری ملازمین اور افسروں کے احتجاج کے بعد 25فیصد اضافے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن یہ ایڈہاک ریلیف ہے، حکومت آخر پے اسکیل ریوائز کیوں نہیں کرتی؟ اب تک چیزیں 1835کے سوشل کنٹریکٹ کے مطابق کیوں چل رہی ہے؟ ایسے مشیر جنہیں معاشی اور معاشرتی ریفارمز کیلیے کروڑوں روپے کی مراعات دی جاتی ہیں، ان کا آؤٹ پٹ کیا ہے؟ ہر محکمے کے مشیر کے لیے نئی گاڑیاں اور مراعات ہیں لیکن ملازمین کیلیے ایک پے اسکیل تک ریوائز کیوں نہیں کیا گیا؟
ملازمین کو 1990سے تنخواہوں کے اسکیلوں پر نظرثانی کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے، اس پر عملدرآمد نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اپنے حق کیلیے افسر اور ملازمین اکٹھے ہو کر سڑکوں پر نکل آئے۔
کیا اب یہی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا کہ لوگ اپنا حق چھین کر لینے پر مجبور ہو جائیں؟ یہ ٹرینڈ خوفناک شکل اختیار کر سکتا ہے، افسر شاہی کو دبانے یا انہیں دھمکیاں دینے جیسے اقدامات نہ کبھی چلے ہیں اور نہ چلیں گے، سیکرٹریٹ افسروں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ صوبوں کی طرز پر انہیں الاؤنسز ملنے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ آج وفاق سے ٹرانسفر ہو کر پنجاب یا دیگر صوبوں میں تعینات ہونے والا کوئی افسر واپس اسلام آباد تعیناتی کو سزا تصور کرتا ہے۔
حکومت کئی مرتبہ افسر شاہی کو ایسے کام کرنے کا کہتی ہے جس میں عوامی مفاد ضرور ہوتا ہے لیکن قانونی پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں جن کو وسیع تر عوامی مفاد میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر ملازمین یا افسروں نے صرف ’’بک‘‘ کے مطابق کام شروع کر دیا تو ریاست کے معاملات رُکنا شروع ہو جائیں گے۔
خلافِ قانون کام کرنے پر کسی کو دبایا یا مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آج تک کسی حکومت نے ملازمین کو 25فیصد تک کا اتنا بڑا ایڈہاک ریلیف نہیں دیا جو موجودہ حکومت نے دیا ہے۔
اس سے پہلے 10سے 20فیصد ایڈہاک ریلیف دیے گئے لیکن ہم ایڈہاک ازم پر ہی چلنا چاہتے ہیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی کو آج بھی سرکاری ملازمین یاد کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے 5برسوں میں تنخواہیں دگنا کر دیں۔
افسر شاہی پہلے علامتی قلم چھوڑ ہڑتال یا ’’گو سلو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا تھی لیکن اب احتجاج کیلیے سڑکوں پر آ گئی ہے تاکہ حقوق کا حصول ممکن ہو سکے، ایسی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے جن سے جائز حقوق کے حصول کیلیے بھی شدت پسندی کا راستہ اختیار کرنا پڑے۔
ایک فلاسفر نے کہا تھا کہ شدت پسند صرف وہ ہی نہیں ہوتا جو تلخ یا اونچی آواز میں بات کرے بلکہ وہ بھی شدت پسند ہی ہوتا ہے جو دوسروں کی بات سننے سے انکار کر دے۔ حکومت عوام کی بات سنے اور ان کے حل کیلیے مربوط پالیسیاں بنا کر ان پر عملدرآمد کروائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور صحیح معنوں میں تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ عوام ہوں یا محکمے، وسائل میں عدم مساوات سے معاشروں میں بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔ حالات کو اس نہج تک جانے سے روکا جائے تاکہ میانمار کی طرح مارشل لاء ہونے کے باوجود بھی عوام حقوق کیلئے سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔