Time 20 فروری ، 2021
بلاگ

’’ریاستِ مدینہ ‘‘میں شرعی اداروں سے مذاق

فوٹو: فائل

نیتوں کا حال ﷲ جانتا ہے اور مجھ سمیت کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے نیک نیت یا بدنیت ہونے کے بارے میں فتویٰ صادر کرے۔ ہم انسان قول اور عمل دیکھ کر رائے قائم کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر رائے کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح یہ صرف ربِ کائنات ہی جانتا ہے کہ کون نیک اور کون گنہگار ہے؟

دوسری بات یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہو سکتا کہ جو حضرت محمدؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کو رول ماڈل نہ سمجھے اور نہ وہ شخص مسلمان ہو سکتا ہے کہ جو اپنے سیاسی نظام کو موجودہ حالات سے ہم آہنگ بنا کر ریاستِ مدینہ کے بنیادی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی خواہش دل میں نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح سیاست میں ریاستِ مدینہ کو رول ماڈل بنانا اگر تقاضائے ایمان ہے تو ریاستِ مدینہ کے پاک نام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ایک انتہائی نامناسب فعل ہے۔

عمران خان نے پہلے اقتدار میں آنے کے لیے ریاستِ مدینہ کے نام کو استعمال کیا اور اب بطور حکمران بار بار اس مقدس نام کا تسلسل کے ساتھ سہارا لے رہے ہیں لیکن شاید انہیں کسی نے سمجھایا نہیں کہ ریاستِ مدینہ کے قیام کے لیے نبی کریمؐ نے پہلے صحابہ کرامؓ جیسے عظیم انسانوں کی ٹیم تیار کی اور ان عظیم انسانوں کے مجموعے سے جو نظام تشکیل پایا، وہ رہتی دنیا تک ایک مثالی ریاست کی حیثیت رکھتا ہے۔

اب عمران خان صاحب نے وزیر قانون، الطاف حسین کے تربیت یافتہ اور پرویز مشرف کے وکیل، فروغ نسیم کو بنایا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جیسے لبرل اور لیفٹسٹ بیوروکریٹ کو بنایا ہے۔

ان کے اصل مشیر زلفی بخاری جیسے لوگ ہیں۔ ترجمانی کے لیے انہوں نے شبلی، فردوس عاشق اور شہباز گل جیسے زبان درازوں کو رکھا ہے۔ دوسری طرف خود کئی مذہبی اصلاحات کو صحیح طرح بول نہیں پاتے لیکن سیاست کے لیے نام ریاستِ مدینہ کا استعمال کرتے ہیں۔

ریاستِ مدینہ کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ وہاں حکمران ہمہ وقت احتساب کے لیے حاضر ہوتے اور احتساب حکمرانِ وقت سے شروع ہو کر نیچے کی طرف جاتا لیکن عمران خان نے خود کو احتساب سے مبرا کر دیا ہے۔

اصل ریاستِ مدینہ میں حکمران کی اولاد کو بھی عام آدمی جیسی سزا ملتی لیکن عمران خان کی ”ریاستِ مدینہ“ میں نواز شریف کے آف شور اکائونٹس حرام جبکہ لیاقت ترکئی اور پارٹی کے دوسرے لوگوں کے پانامہ میں موجود آف شور اکائونٹس حلال ہیں۔

اصل ریاستِ مدینہ میں منصب کے لیے تقویٰ اور صلاحیت ہی معیار تھی لیکن عمران خان کی ”ریاستِ مدینہ“ میں اس کے لیے ”امیرالمومنین“ کا لاڈلا، خدمت گار، خوشامدی یا پھر آئی ایم ایف کا نمائندہ ہونا معیار ہے۔

اسی طرح ریاستِ مدینہ کے حکمران جمعہ کے نماز کی امامت خود کرتے تھے، وہاں پر ہی اپنی پالیسی بیان کرتے اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرتے لیکن عمران خان جب سے ”امیرالمومنین“ بنے ہیں، کسی جنازے میں شرکت کی اور نہ کبھی پبلک جگہ پر نماز پڑھی۔ عوام کا فون سننے کا ڈرامہ کرتے ہیں تو کالیں سوشل میڈیا ٹیم کرتی ہے اور ایڈیٹنگ کے لیے پی ٹی وی کے درجنوں اہلکاروں کا سہارا لیتے ہیں۔

اصل ریاستِ مدینہ کے حکمران اپنی ذمہ داری کے بوجھ کی وجہ سے دن رات ﷲ کے حضور گڑگڑاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے روز ان سے باز پرس ہوگی لیکن عمران خان کی ’’ریاستِ مدینہ ‘‘ میں روز انسان قتل ہوتے اور بھوکوں مررہے ہیں ۔

بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں کئی روز سے ڈی چوک میں دھرنا دے کر ٹھٹھرتی سردی میں زمین پر سورہی ہیں لیکن ’’امیرالمومنین‘‘ کو اتنی توفیق نہیں ہورہی کہ اپنے محل سے نکل کر ان کی اشک شوئی کی خاطر صرف پانچ منٹ کے لیے ان کے پاس تشریف لے جائیں ۔

اصل ریاستِ مدینہ کے حکمران صرف نماز میں صراط مستقیم کی دعا نہیں مانگتے تھے بلکہ عملا بھی اس سے سرمو انحراف کا بھی تصور نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے صراط مستقیم میں یوٹرن کی رتی بھر کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن پاکستانی ”ریاستِ مدینہ“ کے ’’امیرالمومنین‘‘ یوٹرن لینا اپنا فرض اور بڑے لیڈر کی نشانی سمجھتے ہیں۔

نام وہ ریاستِ مدینہ کا لیتے ہیں لیکن ان کی حکومت میں شریعت کے نفاذ کی طرف پیش رفت کے لیے بنائے گئے اداروں کی توہین کی جارہی ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل گزشتہ چار ماہ سے غیر فعال ہے۔سابقہ ممبران کا دور ختم ہوگیا تھا اور نئے ممبران پر اتفاق نہیں ہورہا تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور علامہ طاہر اشرفی کے درمیان ممبران کی تقرری پر جھگڑے جاری تھے اور ناموں پر اتفاق نہیں ہوپارہا تھا۔ اب تینوں نے آپس میں ممبران بانٹ دئیے ہیں ۔

کچھ ممبران دیگر مقتدر لوگوں کی سفارش پر بھرتی ہوئے ،کسی کو مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ممبر بنایا گیا،اکثر تقرریاں مسلکی اور سیاسی بنیادوں پر کی گئیں میرے پاس لسٹ موجود ہے لیکن ابھی ان کا نوٹیفیکیشن نہیں ہوا ۔ شریعت سے متعلق دوسرے آئینی ادارے یعنی فیڈرل شریعت کورٹ کی توہین یوں کی گئی کہ اس کی عمارت میں جسٹس عظمت سعید کے براڈشیٹ کمیشن کا دفتر قائم کیا گیا ۔

سب لوگ بخوبی واقف ہیں کہ عظمت سعید کس قدرمتنازعہ ہیں اور براڈشیٹ کے فراڈ سے بھی دنیا واقف ہے کہ خود اس میں اس حکومت کے ذمہ داران اور نیب کے سابق سربراہان شریک ہیں ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ عظمت سعید کی قیادت میں کمیشن ، ذمہ داران کو بچانے اور ڈرامہ رچانے کے لیے کیا گیاہے ۔ اب یہ وفاقی شرعی عدالت کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ؟

سونامی سرکار نے اب مولانا فضل الرحمٰن کی دشمنی میں دینی مدارس کے وفاقوں کو چھیڑنا شروع کردیا ہے ۔ متعلقہ اور مستند علما سے مشورے کے بغیر دینی مدارس کے نئے وفاق قائم کئے جارہے ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا اصل مقصد چند مسالک کو تقسیم کرکے کمزور کرنا ہے۔

پھر ان کا سربراہ ایسے لوگوں کو مقرر کیا جارہا ہے جو کسی صورت اس کے مستحق نہیں۔ افسوس کہ ایک طرف چند سرکاری مولوی اس عمل میں آلہ کار بن رہے ہیں اور دوسری طرف اس پورے عمل میں پیرزادہ نورالحق قادری عمران خان کی خوشنودی کے لیے دینی طبقے کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔