بلاگ
Time 21 فروری ، 2021

سینیٹ کے 48سال۔ زوال ہی زوال

ہم لاڑکانہ سے خیرپور جارہے ہیں۔ بیرسٹر کمال اظفر کی گاڑی امان اللہ چلارہے ہیں۔ 1970 کے الیکشن ہوچکے ہیں۔ بھٹو صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔ پیچھے میں کمال اظفر اور سردار پیر بخش بھٹو بیٹھے ہیں۔

مجھے صحافی کی حیثیت سے خوشی ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد پہلا خصوصی انٹرویو مجھے مل رہا ہے۔ وہ انٹرویو مجھے سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے یاد آرہا ہے۔ ان دنوں صرف قومی اسمبلی تھی۔ سینیٹ کا وجود نہیں تھا۔ میں پوچھ رہا ہوں۔

آپ دو ایوانی مقننہ کو ترجیح دیں گے یا ایک ایوانی کو۔ ان کا جواب تھا: اگر وفاقی دستور چاہتے ہیں تو دو ایوانی مقننہ کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں چھوٹے صوبوں کے حقوق پر زد پڑے گی۔ ایوان بالا میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی سے وفاق کو تحفظ ملے گا۔ بیرسٹر کمال اظفر لقمہ دیتے ہیں۔ تمام علاقوں کی نمائندگی اور خود مختاری کے لیے دو ایوان ہونا ضروری ہیں ۔

تاکہ آبادی کی بنیاد پر بھی نیابت ہوسکے۔ اور یونٹوں کے حوالے سے بھی۔ اس پر بھٹو صاحب نے صاد کیا ۔ اپنی ان یادوں کی تصدیق میں اپنی مقبول تصنیف ’لاڑکانہ سے پیکنگ‘ سے بھی کررہا ہوں۔

1973 میں سینیٹ آف پاکستان وجود میں آتی ہے۔ تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی کے ساتھ اس ایوان کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ جب قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی ۔ سینیٹ باقی رہے گا۔ یہ جمہوری تسلسل کی علامت ہوگا۔ آج 2021 میں سینیٹ کے قیام کو 48سال ہورہے ہیں۔ جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے فوجی وقفوں نے اس تسلسل کو توڑا تھا۔ان دنوں سینیٹ کے تصور پر بڑے مباحث ہوئے۔

اولیں مقصد تو چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی تھا۔ آبادی کی بنا پر قومی اسمبلی لیکن سینیٹ میں سارے صوبے برابر۔ دوسرا مقصد یہ کہ سینیٹ میں ٹیکنو کریٹ۔ آئین ۔ معیشت۔ تعلیم۔ زراعت اور دیگر شعبوں کے وہ ماہرین رکن بنیں جو عام انتخابات جیت کر قومی اسمبلی کے رکن نہیں بن سکتے تاکہ ایوان میں بحث کا معیار سنجیدہ، غیر جذباتی اور اعلیٰ ہو۔

قومی اسمبلی کی طرح یہ ہڑ بونگ۔ ہنگاموں کے مناظر پیش نہ کرے۔ تیسرا مقصد یہ کہ جمہوری عمل کو تسلسل ملے۔ جن دنوں قومی اسمبلی نہ ہو۔ قومی مسائل پر مباحث جاری رہے۔

سینیٹ کے پہلے مرحلے میں جب حبیب ﷲ خان چیئرمین تھے۔ خواجہ صفدر( خواجہ آصف کے عظیم والد) اپوزیشن لیڈر تھے۔ کل تعداد 45تھی۔ بعد میں 63 ہوئی اب 104ہے۔ سینیٹ آف پاکستان کے مقاصد پس منظر میں جاتے رہے۔ بحث کا معیار گرتا رہا۔ سینیٹ کی بلڈنگیں شان و شوکت کا مرقع بنتی رہیں۔ ارکان کیلئے آسائشیں۔

تنخواہیں بڑھتی رہیں۔ سینیٹ آف پاکستان کے بنیادی مقاصد وفاقی وحدتوں کی مساوی نمائندگی اور ایوان کی بالاتری وہ وقت کے ساتھ ساتھ دولت کی نذر ہوتے رہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ جنرل ضیا کے دَور میں اچھی پابندی عائد کی گئی کہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والے سینیٹ کے رکن نہیں بن سکیں گے۔ جنرل مشرف کے فوجی دَور میں سینیٹ کی سیٹیں بڑھائی گئیں۔ خواتین کی نمائندگی میں توسیع کی گئی۔ 1985 کے بعد جب سینیٹ کئی سال بعد زندہ ہوئی تو اس میں صنعت کار۔ سرمایہ دار اپنی دولت کے بل بوتے پر سینیٹر بننے لگے۔

بھارت میں راجیہ سبھا ایوان بالا ہے۔ میں نے ایک دورے میں اس میں بحث کا معیار بھی دیکھا۔ وہاں فلمی اداکاروں ، شاعروں، دانشوروں، اساتذہ اور ماہرین کو اس ایوان کا رکن بننے کا شرف دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ تو بعض پہلے سے مقرر کیے گئے مشیروں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔

حفیظ شیخ۔ شوکت ترین۔ نثار میمن کیلئے تو یہ مرحلہ اچھا لگتا ہے۔ لیکن سگریٹوں ۔ گھی کے کاروباریوں۔ ٹریول ایجنٹوں۔ ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹروں کو بھی مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر اس ایوان میں لایا جاتا ہے۔ جو اکثر مباحث میں حصّہ نہیں لیتے۔ سینیٹر کی حیثیت سے اپنے کاروباری مسائل حل کرواتے ہیں۔

شاعر مصنف اور فلاح و بہبود کے کام کرنے والے عبدالحسیب خان کو بھی موقع ملا۔ وہ ببانگ دہل سینیٹ کو لٹیروں کی پارلیمنٹ کہتے تھے۔ سینیٹ میں اپنی میعاد کی رکنیت ختم ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ 12مارچ کو لٹیروں کے اس ٹولے سے آزادی حاصل کرلیں گے۔ وہ بلوچستان اور سندھ کے مسائل پر کھل کر بات کرتے رہے۔ بلوچستان سے بھی بہت قابل ذہین سینیٹر آتے رہے۔ جن کی تقریروں کا معیار بھی بہت بلند ہوتا تھا۔

ہاشم غلزئی ۔ زمرد حسین یاد آرہے ہیں۔ سندھ بلوچستان کے ارکان بہت تیاری کرکے آتے تھے۔ سینیٹ کے پہلے چیئرمین حبیب اللہ خان تھے۔ پھر غلام اسحٰق خان۔ وسیم سجاد۔ محمد میاں سومرو۔ فاروق نائیک۔ نیر بخاری۔ رضا ربانی اور اب صادق سنجرانی۔ سینیٹ کو یہ عزت بھی دی گئی کہ صدر مملکت کی عدم موجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین سربراہ مملکت ہوتا ہے۔

جنرل ضیا کے فضائی حادثے میں رحلت کے بعد غلام اسحٰق خان کو اس حیثیت سے صدارت کا موقع ملا۔ مسلم لیگ(ن) اپنے دَور میں میاں رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین منتخب کروانا چاہتی تھی۔ لیکن پی پی پی نے انکار کردیا تھا۔

دولت کے سہارے کے علاوہ سینیٹ کی رکنیت ان وکلا کو بھی ملتی رہی۔ جو پارٹی کے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کے مقدمات لڑتے رہے۔ جیسے سید ظفر علی شاہ۔ فاروق نائیک۔ بابر اعوان۔ اعتزاز احسن۔ فروغ نسیم۔ پی پی پی ۔ اے این پی۔

پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ جمعیت علمائے اسلام نے بہت کم دانشوروں اور ماہرین کو ٹکٹ دیے۔ ایم کیو ایم روایت سے ہٹ کر دانشور، شاعر، قومی نغموں کے خالق جمیل الدین عالی کو اور سینئر صحافی اجمل دہلوی کو سینیٹ میں لائی۔ اب سینیٹ شکست خوردہ سیاستدانوں، تاجروں، صنعت کاروں، سمندر پار پاکستانیوں کی جنت بن چکا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بے تابی سے اس مارچ کا انتظار کرتے ہیں۔

جب سینیٹ کے ارکان کے انتخابات متوقع ہوتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کرشنا کوہلی کو ٹکٹ دے کر لوگوں کو حیران کیا تھا۔ پہلی بار اس غریب برادری کو اس اعلیٰ مقام پر جانے کا موقع ملا۔ آج کل کے سینیٹرز کے اثاثوں کے گوشوارے ہی ملاحظہ کرلیں۔

اس سے بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ دو ایوانی مقننہ کا قیام جن اعلیٰ مقاصد کیلئے عمل میں لایا گیا تھا، وہ کہاں تک پورے ہوئے ہیں۔ سینیٹ کے نشیب و فراز جاننے کے لیے سینیٹر نثار میمن کی تصنیف Insight In To The Senate Of Pakistan۔بھی بہت مدد کر سکتی ہے کہ پوری سنجیدگی اور خلوص سے اگر کوئی سینیٹر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو سینیٹ بہت ہی طاقت ور اور با اختیار ادارہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔