فوجی بغاوت، میانمار کا مسئلہ کیا ہے؟

فائل:فوٹو

رواں ماہ کی یکم تاریخ کی صبح میانمار (پرانا نام برما) کی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اس کے ساتھ ہی فوج نے برسراقتدار جماعت ’’نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی‘‘ کی رہنما آنگ سانگ سوچی اور دیگر سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔

 حالانکہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت نے حکومت بنانے کیلئے درکار نشستیں حاصل کرلی تھیں اور 80فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے حالانکہ آنگ سانگ سوچی کی حکومت پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے سنگین الزامات تھے لیکن اس کے باوجود یہ جماعت مقبول رہی۔ 

نومبر میں ہونے و الے انتخابات کے بعد سوچی پر انتخابی دھوکہ دہی کے الزامات لگے گو کہ اس کے ثبوت کوئی نہیں تھے لیکن یہ الزامات فوج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت ’’ یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ‘‘ کی طرف سے لگائے گئے تھے، یہاں یہ بات انتہائی دلچسپی کی حامل ہے کہ 1948ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے 2011ء تک عملی طور پر برما میں فوج ہی اصل حکمران رہی ہے پھر 2011ء کے بعد آنگ سانگ سوچی حکمران بنیں تو بھی 2008ء میں بنایا گیا ۔

ملکی آئین فوج کو حکومتی آئین پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیتا ہے بلکہ آئینی طور پر فوج کو اقتدار میں 25فیصد حصہ دیا گیا ہے اور داخلہ ،دفاع اور سرحدی امور کی وزارتیں بھی دی جاتی ہیں چنانچہ اس قسم کے حالات میں فوج کو سوچی حکومت سے شاید یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اکثریتی حکومت آئین میں تبدیلی کرکے فوج کو اقتدار سے مکمل طور پر علیحدہ کر سکتی ہے۔

 حالانکہ ایسا ہونا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس کیلئے 75فیصد اکثریت درکار ہوتی ہے جو سوچی حکومت کے پاس ہو نہیں سکتی تھی کیونکہ 25فیصد نشستیں تو پہلے ہی فوج کے پاس ہوتی ہیں اور پھر ایوان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی موجود ہے ۔

2017ء میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم اور ان کا قتل عام بہت بڑھ چکا تھا عالمی سطح پر میانمار حکومت، فوج پر شدید تنقید ہو رہی تھی، لندن کی ایک معروف این جی او ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ’’ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد ان مظلومین کی امداد کی غرض سے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ برما اور بنگلہ دیش کی سرحد پرلٹے پٹے روہنگیا مسلمانوں کی خیمہ بستیوں تک پہنچے تھے ان کے مطابق یہاں میانمار فوج کی سخت سیکورٹی تھی ہمیں یہ حکم تھا کہ کھانے پینے کی جو اشیاء بھی خریدنی ہیں وہ مقامی طور پر ہی خریدی جا سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود خوراک سے بھرے ان کے ٹرکوں کو روک کر ان کی مکمل تلاشی لی جاتی اور بلاوجہ تنگ کیا جاتا اس کے باوجود کہ ہم اقوام متحدہ کی گائیڈلائنز کے مطا ق اپنا امدادی کام کر رہے تھے، 

عبدالرزاق ساجد اور ان کے ساتھ گئے صحافیوں کے مطابق ان کے امدادی ٹرکوں کی تلاشی لینے اور انہیں تنگ کرنے و الی میانمار کی پولیس یا دیگر حکومتی ایجنسیز نہیں بلکہ براہ راست میانمار کی فوج ہی تھی اور مکافات عمل دیکھئے کہ اس وقت جب روہنگیا مسلمانوں پر برما کی حکومت اور فوج کے مظالم کیخلاف عالمی سطح پر تنقید ہو رہی تھی اور مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا نے عالمی عدالت میں ان مظالم پر درخواست دائر کر رکھی تھی ۔

اس وقت اسی آنگ سانگ سوچی، جو کہ امن کی نوبل انعام یافتہ ہے، نے موقف اختیار کیا کہ عالمی عدالت کو اس کیس کی سماعت ہی نہیں کرنی چاہئے اس وقت سوچی نے تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی فوج کے مظالم کے حق میں بیان دیا تھا جس نے آج اس کی اکثریتی حکومت کو چلتا کیا اور سوچی کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

 چیئرمین ’’اے ایم ڈیلیو ٹی ‘‘ عبدالرزاق ساجد نے گیمبیا کی حکومت کو میانمار میں ہونے والے مظالم سے متعلق اپنی آنکھوں دیکھے واقعات سے بھی آگاہ کیا تھا ۔گزشتہ سال 22جنوری کو دی ہیگ کی عالمی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے برمی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ فوج کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکنے کے اقدامات کرے لیکن یقیناً سوچی حکومت کے پاس فوج کو روکنے کی طاقت نہیں تھی ۔

یکم فروری 2021ء کو جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تو فوری طور پر یہ اعلان بھی کیا کہ ہم ایک سال کے اندر ملک میں الیکشن کروا کے اقتدارانتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت کو منتقل کر دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک اکثریتی جماعت جس کی قیادت کو قید کر لیا گیا ہے وہ آئندہ الیکشن ہار جائیگی اور فوج کی حمایت یافتہ جماعت جیت جائیگی یقیناً اگر ایسا ہوا تو یہ فوج کی طرف سے الیکشن پر براہ راست اثرانداز ہوئے بغیر نہیں ہو سکتا ۔

گزشتہ ادوار کے برعکس حالیہ فوجی شب خون میں بڑا فرق یہ ہے کہ اس مارشل لا کا عالمی سطح پر شدید ردعمل ہوا ہے اور ایسا اس لئے بھی ہوا کہ میانمار کے عوام خصوصاً طلبہ نے اس فوجی بغاوت کے سامنے سینہ سپر ہونے کا اعلان کر دیا اور بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہیں، بین الاقوامی طور پر میانمار پر بڑی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ چند سال پہلے کی طرح میانمار کو ایک ناپسندیدہ اور خارج شدہ ریاست ڈکلیئر کر دیا جائے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی عالمی سطح پر اہم ہے کہ قابض فوج کے چیف جنرل من آنگ ہلینگ کا موجودہ حالات میں اگلا قدم کیا ہو گا، فوجی حکومت کے خلاف عوام میں پھیلی نفرت اور بڑھتے ہوئے مظاہروں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی طرف سے مذمتی بیانات اور پابندیوں کی صورتحال سے وہ کس طرح نمٹیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔