22 فروری ، 2021
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
عوام کو تو نہ ہوش ہے نہ کبھی آنے دیا گیا ہے، لیکن کچھ لوگ یقیناً بخوبی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے کن تین محاذوں پر لڑتے لڑتے عوام کو کس بری طرح بدحال اور برباد کیا۔ ان دو ’’سیاسی‘‘ جماعتوں نے برسوں برسرپیکار رہ کر سب کچھ بیکار کردیا۔ انہوں نے اقتصادیات سے لے کر اخلاقیات کو تاخت و تاراج کیا کہ اصولاً تو سیاستدان ہی ’’رول ماڈل‘‘ ہوتا ہے لیکن ان دو رول ماڈلز نے ہر شے رول کے رکھ دی۔
ان دونوں جمہوری ہاتھیوں نے جنگ و جدل میں ’’گراس روٹ‘‘ کو کچل کر رکھ دیا۔ گھاس کا ستیاناس کرکے چمن ہی اجاڑ دیا۔ یہ صرف سیاسی محاذ پر ہی دست و گریباں نہ ہوئے بلکہ ملکی وسائل کی لوٹ مار میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی سفاکانہ جنگ میں مشغول رہے۔ تیسرا محاذ جنگ تھا منافقت کا جو میثاق جمہوریت سے لے کر وقفوں کے ساتھ آج تک زور و شور سے جاری ہے تازہ نام پی ڈی ایم۔
ایک زمانہ میں، جب بی بی اور بابو بری طرح ٹکرو ٹکری تھے اور دونوں کے درمیان شیخ رشید والا جوڈو کراٹے جاری تھا، میں نے مختلف انداز میں درجنوں بار لکھا کہ ’’لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم‘‘ یہ بھی عرض کیا کہ اس چونچ اور دُم والے حادثہ کے بعد یہ دونوں بہن بھائی بن کر ’’بحالی جمہوریت‘‘ کی تحریک چلاتے نظر آئیں گے۔ کچھ لوگوں نے مذاق بھی اڑایا لیکن پھر وہ ’’بارہ اکتوبر‘‘ بھی آیا جس نے دونوں کا حشر نشر کردیا۔ نوبت ’’جدہ‘‘ میں راکھی باندھنے بندھوانے سے میثاق جمہوریت تک پہنچی۔ پھر ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹتے گھسیٹتے اور گتھم گتھا ہونے کے دوران جپھیوں اور پی ڈی ایم کی منافقت تک آ پہنچے۔
مختصراً یہ کہ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ سانپ نکل گئے صرف لکیریں باقی رہ گئیں لیکن عوام کے ہاتھوں پر منحوس لکیروں میں اضافہ جاری تھا، جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا کہ سیاستدان نامی اس کمیونٹی نے بالغ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
کل تک اس ملک کے عوام پی پی پی، ن لیگ نام کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے، ملکی اقتصادیات اور اخلاقیات کی پسائی کا میچ جاری تھا کہ اب اس میں ایک تیسرے پاٹ کا بھی اضافہ ہو گیا ہے جسے ’’پی ٹی آئی‘‘ کہتے ہیں۔
پاکستان کے عوام شاید انسانی تاریخ کے وہ ’’واحد‘‘ عوام ہیں جو اب ایک ایسی چکی میں پس رہے ہیں جس کے دو نہیں، تین پاٹ ہیں۔ ہوس اقتدار کے کھیل میں دو فریقوں نے ہی دھوم مچا رکھی تھی کہ چشم بددور اب ایک تازہ دم فریق بھی کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے، گھمسان کا رن ہماری روشن روایات کے مطابق جاری و ساری ہے۔
عوام پر طلوع ہونے والا ہر دن گزشتہ دن سے کہیں زیادہ بھاری ہے اور ماشا ﷲ میڈیا بھی اس جلتی پر تیل چھڑک رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے‘‘ یا خاک میں مل کر خاک کا حصہ بنتا ہے۔ کہتے ہیں آگ سونے کو کندن بنا دیتی ہے لیکن یہ عام قسم کی سادہ سی آگ ہوتی ہے جبکہ ہوس اقتدار کی آگ سونا ہی غائب کردیتی ہے۔
اس مختصر سے تبصرے کے بعد ڈسکہ میں جو جمہوری ڈسکو ڈانس پیش ہوا، اس کی صرف اخباری سرخیاں پیش کروں گا، جس سے آئندہ کا نقشہ دیکھنے میں تھوڑی سی آسانی ہو سکتی ہے۔
’’ڈسکہ میں ایک پولنگ سٹیشن پر فائرنگ، 2افراد ہلاک‘‘۔
’’ڈسکہ میں فائرنگ سے دو افراد ہلاک، 8زخمی ‘‘۔
ضمنی الیکشن، ڈسکہ میں فائرنگ، جھگڑے‘‘۔
’’ڈسکہ میں 2جاں بحق، 10زخمی، موٹر سائیکل سوار کھلے عام جدید اسلحہ لئے سڑکوں پر دندناتے رہے‘‘۔
عوام خاطر جمع رکھیں کہ جدید اسلحہ کے ساتھ جو شے سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہے وہ جمہوریت ہے اور جو مدتوں سے آپس میں دست و گریباں ہے وہ بھی جمہوریت ہے اور جو ملکی وسائل کی لوٹ مار کے بعد وکٹری سٹینڈ پر سٹر پٹیز کر رہی ہے، وہ بھی کوئی رقاصہ نہیں جمہوریت ہے اور جو اخلاقیات کی زخم خوردہ لاش کو گھسیٹ گھسیٹ کر قبرستان کی طرف کھینچ رہی ہے، وہ بھی جمہوریت ہے، جو ایون فیلڈ میں خراماں خراماں ٹہل رہی ہے وہ بھی جمہوریت ہے اور جو یہاں جلسوں میں گل پاشی کر رہی ہے، وہ بھی جمہوریت ہے، جو منی لانڈرنگ کر رہی ہے اور جس نے روپے کو ٹکے ٹوکری کردیا وہ بھی جمہوریت ہے۔
غیور باشعور عوام کو مبارک ہو کہ وہ جس جمہوری چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے اس میں پی ٹی آئی نامی تیسرے پاٹ کا اضافہ ہو چکا ہے اور یاد رہے کہ جمہوری چکی کا یہ تیسرا پاٹ پہلے دو پاٹوں کے اجزا پر ہی مشتمل ہے۔
’’یہ وطن ہمارا ہے.... اور یہ ہیں پاسباں اس کے‘‘
سینٹ الیکشن میں بولیاں تو ’’جمہوری جھونگا‘‘ ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔