23 فروری ، 2021
میں دھاندلی ہوں، میں انتخابات کے ماتھے کا کلنک ہوں، میں زور آوروں اور طاقتوروں کی باندی ہوں اور کمزوروں کے خلاف استعمال ہوتی ہوں۔ میں ہر اس الیکشن میں حملہ آور ہوتی ہوں جس میں انتظامیہ کمزور، حکمران بےحس اور جانبدار ہوں اور جہاں کا ایک فریق طاقت کے نشے میں چُور ہو۔ میرا سہارا لے کر ہی امیدوار کامیابی کے جھوٹے جھنڈے گاڑتے ہیں۔ میری تاریخ بڑی قدیم ہے مگر میں آج کے جدید زمانے میں بھی اسی طرح زندہ و جاوید ہوں۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب 1951ءمیں پہلے صوبائی انتخابات ہوئے، میں نے اپنا بھرپور کام دکھایا۔ میرے کام پر حکمران جماعت خوش ہوئی اور اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آیا، اسی لئے اپوزیشن نے میرا نام جھرلو رکھ دیا۔
1977ءکے الیکشن میں کئی حلقوں میں مجھے پھر بروئے کار لایا گیا لیکن یہ معاملہ چل نہ سکا اور حسد کی ماری اپوزیشن نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلا دی۔ میرا نام بدنام کرکے بالآخر حکومت ہی رخصت کر دی گئی، بعد ازاں میرے نام دھاندلی کو انگریزی کا خوبصورت نام ریفرنڈم دے کر اسے استعمال کیا گیا اور جنرل ضیاء الحق اسلام و اسلامی نظام کا نام لے کر خود منتخب ہو گئے۔
یہ الگ بات ہے کہ لوگ ریفرنڈم، دھاندلی اور جھرلو کو ایک ہی سمجھتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا ریفرنڈم بھی میرا ہی چمت کار تھا۔ میرا تازہ کارنامہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دیکھنے میں آیا ہے، مجھے اس قدر زیادہ استعمال کیا گیا کہ بالآخر الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی بول پڑا اور نتائج روک لئے۔
مجھ دھاندلی کا زور و شور، اندھیرے اور دھند میں زیادہ ہوتا ہے۔ ڈسکہ میں یہی ہوا جبکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا اور آئندہ بھی جہاں میں نے کام دکھانا ہوگا اندھیرا اور دھند میرے بہترین ہتھیار ہوں گے لیکن جب میری بدمعاشی انتہا کو پہنچے، جب مجھے اپنی طاقت پر زیادہ ہی گھمنڈ ہو،
جب مجھے ہر صورت جیتنا ہو تو پھر میں دن کی روشنی میں بھی فائرنگ کروا کے پولنگ بند کروا دیتی ہوں، نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ڈسکہ شہر میں ن کے ووٹ زیادہ تھے، پولنگ بند کروانے کے لئے یہی کروانا پڑا اور یہ حربہ بڑا کامیاب رہا۔ بس 5موٹر سائیکل سوار، اسلحہ لے کر شہر میں نکلے، جگہ جگہ فائرنگ کی، خوف و ہراس پھیلایا، یوں میرا کام بخوبی کر دیا۔
میرا دیسی نام دھاندلی ہے لیکن میں بین الاقوامی مخلوق ہوں۔ میں دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہوں جہاں زور زبردستی ہو گی، آمرانہ اور بدمعاشی والا ذہن ہو گا، میں وہاں موجود ہوتی ہوں۔ مشہور انگریزی ناول نگار چارلس ڈکنز نے اپنے زمانے کے انگلستان کے انتخابات کی جو کہانی لکھی ہے وہ میری کارروائیوں کی انتہا کی داستان ہے۔
چارلس ڈکنز کے بقول ووٹروں کو لاریوں پر بھر کر پولنگ اسٹیشنوں پر لایا جاتا تھا، ووٹوں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، جعلی ووٹ ڈالے جاتے تھے، بیلٹ باکس اٹھائے جاتے تھے، غرضیکہ وہی سب کچھ جو آج کل تضادستان میں ہوتا ہے وہی سب کچھ اس زمانے کے انگلینڈ میں ہوتا تھا۔ وہاں حالات بدل گئے، شعور اور آگہی کی آندھیاں چلیں اور میں دھاندلی وہاں سے اڑ کر یہاں آ گئی۔
ڈسکہ میں جو کچھ ہوا یہ چھوٹا سا ٹریلر تھا۔ اگر اس رجحان کے راستے میں کوئی مزاحمت نہ ہوئی تو بلدیاتی انتخابات میں مَیں کھل کرکھیلوں گی اور پوری فلم چلائوں گی اور اگر موقع ملا تو اگلے عام انتخابات میں بھی ہر طرف دھاندلی ہی دھاندلی ہو گی۔
میں راز کی بات بتا دوں، دھاندلی کے لئے سازگار فضا وہ معاشرہ خود بناتا ہے جہاں جانب داری اور تعصب کا راج ہو، جہاں سے سچ اور انصاف کا جنازہ اٹھ گیا ہو، ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور سیاسی مخالفت زوروں پر ہو۔
ڈسکہ ہی کی مثال لے لیں اور دونوں اطراف کے ترجمانوں کے بیان سنیے جانبداری تعصب اور نفرت سے بھرے ہوئے، ایسے میں ہی دھاندلی کو فروغ ملتا ہے۔ کاش ان میں کوئی انصاف پسند یا سچا ہو، کوئی اپنی غلطی تسلیم کرے، یہ مان لے کہ ہم سے غلطی ہوئی تو میں دھاندلی کہیں غائب ہی ہو جائوں لیکن جب تک دونوں طرف کے ترجمان اسی طرح جھوٹ اور جانبداری سے کام لیتے رہیں گے میرے لئے ستے خیراں ہیں۔
دھاندلی ہر دور میں ہوئی ہے اور ہر دور میں اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک دھاندلی کرنے والوں کے اندر احساس جرم نہیں پیدا ہوتا۔ تضادستان میں انتظامیہ، عدلیہ اور فوج تینوں ادارے مختلف ادوار میں الیکشن کرواتے رہے ہیں۔ انتظامیہ نے 1970سے پہلے کے تمام الیکشن کروائے جن پر انگلیاں اٹھتی رہیں۔ 1970کے انتخابات فوج نے کروائے اور ان کو غیرجانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات سمجھا جاتا ہے۔
بعدازاں کئی انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں بھی ہوئے، اب عدلیہ اور فوج دونوں ہی انتخابی نگرانی کرنے سے معذوری اختیار کر چکے ہیں۔ ڈسکہ کے انتخابات انتظامیہ نے کروائے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات بھی اسی انتظامیہ نے کروانے ہیں، اسلئے اگر مجھ دھاندلی کے سائے اور اثرات سے بچنا ہے تو ابھی سے انتظامیہ کی ایسی جانچ پڑتال کی جائے اور ایسی سزا دی جائے کہ وہ آئندہ میری آئو بھگت نہ کریں۔
اخباری نمائندے اکثر مجھ ’’دھاندلی‘‘ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کب تضادستان کی جان چھوڑو گی؟ تو میں ہنس کر جواب دیتی ہوں کہ میں اس دن تمہاری جان ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گی جس دن تم میں ایک بھی سچا انسان پیدا ہو گیا اور اس نے مان لیا کہ میں دھاندلی کا ساتھ نہیں دے سکتا، اس لئے کہ میں دھاندلی کے خلاف ہوں، جس دن ایسا ہو گیا اس دن سے میرا زوال شروع ہو جائے گا،
جس دن دھاندلی کرنے والوں میں احساس جرم اور شرم پیدا ہو گئی اس دن دھاندلی کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ میں دھاندلی تو اپنوں ہی کی مدد سے زندہ ہوں، اگر یہ مدد ختم ہو جائے تو میں مر جائوں گی۔ انگلستان اور مغربی دنیا میں اب کوئی میری مدد نہیں کرتا اسی لئے میں وہاں کہیں پائی بھی نہیں جاتی۔
افسوس یہ ہے کہ جب اصول کی بات ہوتی ہے تو ہر کوئی میری یعنی دھاندلی کی مذمت کرتا ہے مگر کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اپنی پارٹی کے موقف سے ہٹ کر سچ بول دے؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو کہے کہ 23پریذائڈنگ آفیسرز کو غائب کرنا یا غائب ہونا غلط ہے؟ کوئی ایک بھی ایسا انصاف پسند جمہوری ہے جو ببانگ دہل کہے کہ میں ڈسکہ کے انتخاب میں اختیار کئے گئے ہتھکنڈوں کی مذمت کرتا ہوں؟
کوئی ایک بھی ایسا بہادر ہے جو اپنی پارٹی میں رہتے ہوئے پارٹی کے غلط موقف کو مسترد کر سکے؟ کیا کوئی ایک ایسا بھی ہے جو سچ کا بول بالا کرےاور صرف اصول کا جھنڈا بلند کرے؟ یاد رکھیں کہ جس دن ایسا ہوگیا میں دھاندلی اس دیس کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلی جائوں گی اور پھر کبھی واپس نہیں آئوں گی ...
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔