25 فروری ، 2021
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد رائے محفوظ کر لی۔
سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔
وکیل پاکستان بار کونسل منصور عثمان اعوان کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا تو اس کا اثر تمام انتحابات پر ہو گا، آئین میں کسی الیکشن کو بھی خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروانے کا نہیں کہا گیا، درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکرٹ بیلٹ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتحابی عمل سےکرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی؟ انتحابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ اوپن بیلٹ سے متعلق ترمیمی بل پارلیمنٹ میں موجود ہے تو ترمیم میں کیا مسئلہ تھا؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا دور گزرا ترمیم کیوں نہیں کی؟ پیپلز پارٹی دور میں بھی سینیٹ الیکشن سے متعلق موقع تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو تسلیم کر رہی ہیں، آپ نے ویڈیوز بھی دیکھی ہیں، کیا آپ دوبارہ وہی کرنا چاہتے ہیں، سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کر رہے ہیں لیکن خاتمے کے لیے اقدامات کوئی نہیں کر رہا، ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا پہلے دن سے سن رہے ہیں کہ پارٹی فیصلہ کرتی ہے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دنیا بھر کے پارلیمانی سسٹم میں یہی ہوتا ہےکہ پارٹی اپنے امیدوار کی حمایت کرتی ہے۔
وکیل لاہور ہائیکورٹ خرم چغتائی کا کہنا تھا وفاقی حکومت کو عدالت سے رائے مانگنے کا اختیار نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں ریفرنس صدر پاکستان نے بھیجا ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا ہم صدر کو بلا کر پوچھیں کہ انہیں سوال کیوں عوامی اہمیت کا لگا؟
خرم چغتائی کا کہنا تھا اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کے وکیل ہوتے ہیں صدر کے نہیں، ریفرنس سے پہلے ہر زاویے سے جائزہ لینے کا فیصلہ جسٹس فائز کیس میں دیا گیا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے خلاف نظرثانی کیس زیر سماعت ہے۔
خرم چغتائی کا کہنا تھا الیکشن ایکٹ بنانے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے رائے لی گئی، شیخ رشید، عارف علوی، شبلی فراز بھی الیکشن ایکٹ کمیٹی میں شامل تھے، الیکشن ایکٹ کے لیے 89 اجلاس ہوئے تھے۔
خرم چغتائی نے کہا کہ صدر عارف علوی خود آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے ممبر تھے، کابینہ میں بیٹھے ہوئے اکثر وزراء بھی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے ممبر تھے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ اب تک کیا اصلاحات ہوئی ہیں؟ جبکہ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ اس وقت صدر ایم این اے تھے اور انفرادی حیثیت میں کمیٹی کے رکن تھے، اب وہ صدر پاکستان اور وفاق پاکستان کے سربراہ ہیں۔
وکیل لاہور ہائیکورٹ بار نے کہا کہ صدر پاکستان نے کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس پر کام کرنا ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آپ صرف اٹھائے گئے سوالات تک محدود رہیں۔
خرم چغتائی نے کہا کہ عدالت خود تو 17 دن حکومتی مؤقف سنتی رہی اور ہمیں سننا بھی گوارا نہیں، اراکین اسمبلی سینیٹ کا الیکٹورل کالج ہے، ان اراکین کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بہت وقت لے لیا، اب 5 منٹ میں دلائل مکمل کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے مجھے 17 دن سنا ہے 15 منٹ اور سن لیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ موجودہ ریفرنس میری زندگی کا سب سے اہم کیس ہے، 15 منٹ سے اوپر نہیں لوں گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا یہاں کہا گیا کہ ڈیپ اسٹیٹ پیچھے لگ جائیں گی، دنیا کی ساری ڈیپ اسٹیٹس سیکریسی کو پسند کرتی ہیں شفافیت کو نہیں۔
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ سےکرانے کے صدارتی ریفرنس پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد رائے محفوظ کر لی۔