بلاگ
Time 28 فروری ، 2021

سینیٹ الیکشن اور عثمان بزدار

فائل:فوٹو

ولید اقبال کا یہ کہنا کہ پنجاب میں بلامقابلہ سینیٹرز منتخب ہونے کا کریڈٹ پرویز الٰہی کو جاتا ہے، قطعاً درست نہیں ۔یہ کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ہے۔ قاف لیگ خود سینٹ کی ایک سیٹ ملنے پر ان کی ممنون ہے۔ جوں جوں سینٹ انتخابات قریب آئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی سیاسی سرگرمیاں مزید تیز کردی تھیں۔ 

انہوں نے تحریک انصاف اور اتحادی جماعت ق لیگ کے سینیٹ کے امیدواروں کا اجلاس بھی طلب کیا اور وزراء اور اراکین اسمبلی کے گروپس تشکیل دیئے۔ ان گروپس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے متعلقہ امیدوار سے رابطہ میں رہیں، خود بھی وہ تمام گروپس سے کوآرڈنیشن کرتے رہے۔

 اس ذاتی دلچسپی کی وجہ سے پنجاب میں اصولی سیاست کی جیت ہوئی ہے۔ یہ جیت آئندہ آنے والے سیاسی موسم کیلئے ایک رول ماڈل بھی ہے اور اس رول ماڈل نے پنجاب میں سیاست کا معیار بھی بلند کردیا ہے۔ وگرنہ پچھلے الیکشنز میں جس طرح سینیٹ کا تقدس پامال کیا گیا، جس طرح ہارس ٹریڈنگ کی وڈیوز سامنے آئیں، جس طرح ووٹ خریدنے کے لئے کنسورشیم بنائے گئے اور جس طرح اوپن ووٹ کی مخالفت کی گئی‘ اسے دیکھتے ہوئے صاف شفاف انتخابات کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔
عثمان بزدار کو پنجاب کی سیٹوں پر بلا مقابلہ انتخابات کا کریڈٹ اس لئے بھی جانا چاہئے کہ وزیر اعلیٰ نے اپنے دفتر کا دروازہ صرف اپنے اور اتحادی ایم پی ایز پر ہی نہیں، اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے لئے بھی کھلا رکھا ۔ان کے مسائل سنے اور انہیں حل کیا لیکن سیاسی خرید و فروخت کا حصہ نہیں بنے۔ وہ چاہتے تو اپوزیشن سے ایک آدھ سینٹ کی ان کی نشست چھین بھی سکتے تھے مگر ان کی میٹھی اور صاف ستھری زبان کی طرح ان کی نیت بھی صاف ہے۔

 حامد میر نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی، صرف کامل علی آغا کو سینیٹر بنوانا چاہتے تھے۔ نون لیگ کے ارکان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ رابطے میں تھے۔کامیابی کے بعد کامل علی آغا اورنو منتخب سینیٹرز نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی اور شکریہ ادا کیا کہ وزیر اعلیٰ نے پنجاب میں کامیاب حکمت عملی کے ذریعے سینیٹرز کو بلامقابلہ منتخب کرایا اور منڈیاں لگانے والوں کی سیاست کو ناکام بنایا۔

 پنجاب میں شفافیت کی جیت ہوئی اور بولیاں لگانے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر پاکستانی سیاست کے مشکل ترین صوبے میں معاملات اتنے اسموتھ چل سکتے ہیں تو دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں چل سکتے ۔ پنجاب کی اس مثال نے دیگر صوبوں کےمتحرک بریف کیس مافیا کو پریشان کردیاہےکہ اس طرح بھی سینیٹ کا الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔نہ کوئی گالم گلوچ نہ الزام تراشی، نہ کروڑوں کا لین دین ۔ کہاں گئے اپوزیشن کے دھرنے، ارکانِ اسمبلی کے استعفے، لانگ مارچ، کیسی عجیب بات ہے کہ ڈسکہ کے محاذ پر جنگ و جدل جاری رکھنے والی نون لیگ پنجاب کے سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ مل جانے پر مجبور ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں، کچھ لوگ تو اس کا تعلق حمزہ شہباز کی ضمانت کے ساتھ بھی جوڑ رہے ہیں مگر وہ علیحدہ معاملہ ہے ۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکمت عملی کے سبب سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر بھی عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی یقینی ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی پارٹیوں میں سے نون لیگ کے بیس ارکان یوسف رضا گیلانی کو نہیں عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ ووٹ بھی انہی کو ملیں گے۔ آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم کو اس نشست پر الیکشن لڑا کر ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔

جہاں تک معاملہ جے یو آئی کا ہے تو وہاں تیرہ سالہ لڑکی کا ایشو چل رہا ہے۔ جے یو آئی کے 64 سالہ ایم این اے پر الزام ہے کہ اس نے تیرہ سالہ بچی کے ساتھ شادی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کو کچھ ایم این ایز نے کہا ہے کہ اس معاملہ پر اگر آپ نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم سینیٹ میں اپنے ووٹ اپنی مرضی کے امیدوار کو دیں گے۔ فواد چوہدری نے اسمبلی میں بار بار اس بات کی وضاحت چاہی کیونکہ انٹرنیشنل سطح پر اس خبر کو بہت اچھالا جارہا ہے۔ میری عمران خان سے درخواست ہے کہ چائلڈ ابیوز کے قانون کے تحت فوری طور پر اس ایم این اے کو گرفتار کیا جائے اوراس بچی کو دار الامان پہنچایا جائے۔

مجھے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن کی طرف سے دوبارہ انتخابات کے اعلان پر بھی حیرت ہے۔ دونوں امیدواروں کے درمیان صرف بیس پولنگ اسٹیشن کے نتائج پر اختلاف تھا۔ وہاں دوبارہ انتخابات کرائے جا سکتے تھے لیکن سارا الیکشن دوبارہ کروانا فنڈز اور وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے پہلے ایسی شاید ہی کوئی مثال موجود ہو کہ الیکشن کمیشن نے اتنی جلدی کسی حلقے میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کردیا ہو۔بہر حال اب معاملہ عدالت عالیہ کے پاس ہے ۔

اب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو مبارک کہ انہوں نے والٹن ایئرپورٹ پر لاہور سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے میگاپروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ لاہور سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا منصوبہ 3مراحل میں مکمل ہونا ہے۔یہ منصوبہ مجموعی طور پر 300 ایکڑ اراضی پر محیط ہے۔ پہلا فیز 128 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہوگا۔

 پہلے فیز میں تقریباً 1300 ارب روپے کا کاروبار ہوگا ۔کمرشل ڈسٹرکٹ قائم کیا جائے گا ۔دوسرے فیز میں ڈیجیٹل ڈسٹرکٹ اور تیسرے فیز میں رہائشی ڈسٹرکٹ بنایا جائے گا۔اس میگاپروجیکٹ میں بلند و بالا بلڈنگز تعمیر ہوں گی۔ اس کے ڈیزائن میں قدیم لاہور کے طرز ِ تعمیر کو سامنے رکھا گیا ہے۔ 

لاہور کے تاریخی دروازوں کی طرز پر اس پروجیکٹ کے داخلی و خارجی راستےبنائے جائیں گے، عمارتوں کی چھتوں پر درخت اور سبزہ اگایا جائے گا ، کمرشل ایریا، کارپوریٹ آفس، اپارٹمنٹ بلڈنگ، ہوٹل، آئی ٹی اینڈ ٹریڈ ٹاور، بینک اسکوائر، شاپنگ مال بنائے جائیں گے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔