01 مارچ ، 2021
سینیٹ آف پاکستان آج سے نہیں بلکہ مدتوں سے بدنام ہے۔ سالہا سال سے یہ تاثر موجود ہے کہ سینیٹ کا رُکن بننے کیلئے کچھ لوگ اپنی دولت کا استعمال کرتے ہیں اور اراکینِ اسمبلی کے ووٹ خرید کر پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے رکن بن جاتے ہیں لیکن کیا پاکستان میں صرف اراکینِ اسمبلی ہی اپنا ضمیر بیچتے ہیں؟
احتساب عدالت کے ایک جج ارشد ملک کو اُن کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ صرف ایک وڈیو فلم اُن کی ہی نہیں بلکہ اُن کے ادارے کی بدنامی کا بھی باعث بنی۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی ججوں نے اپنے وقت کے حکمرانوں کی مرضی کے فیصلے کئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اہم عہدے حاصل کئے۔ یہ کہانی نظریۂ ضرورت کے بانی جسٹس محمد منیر سے شروع ہوتی ہے جو جنرل ایوب خان کے وزیر قانون بنے اور پاکستان کی عدلیہ کے کردار پر ہمیشہ کے لئے ایک داغ لگا گئے۔
اس کہانی میں ججوں کے علاوہ کچھ صحافیوں کے نام بھی آتے ہیں جو صحافت کو سیڑھی بنا کر اہم سرکاری عہدے حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اپنے ’’باس‘‘ کی بےجا خوشامد کرکے ایک ایسا لفافہ بن جاتے ہیں جس میں تمام عمر ضمیر فروشی کے الزامات جمع ہوتے رہتے ہیں۔
اسی ضمیر فروشی کے خلاف وزیراعظم عمران خان نے آواز بلند کی اور سینیٹ کا الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے کرانے کی بجائے اوپن بیلٹ کی تجویز پیش کی۔ وزیراعظم صاحب نے بات تو کر دی لیکن اس سلسلے میں اپوزیشن کے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اخلاقی برتری ثابت کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا لیکن دوسری طرف اپوزیشن کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔
حکومت نے پارلیمنٹ کی ذمہ داری عدلیہ کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ ایک طرف آئین کی دفعہ 186کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا اور پوچھا کہ سینیٹ کا الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے کرایا جائے یا اوپن بیلٹ سے؟ دوسری طرف عدالتی فیصلے کا انتظار کئے بغیر ہی ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا۔
اس ہنگامے میں سینیٹ کا الیکشن سر پر آن پہنچا تو وزیراعظم نے الزام لگا دیا کہ بلوچستان میں سینیٹ کی رکنیت کا ریٹ 70کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس دوران تحریک انصاف نے سینیٹ کے لئے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا۔ پنجاب کے سوا باقی تینوں صوبوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں پر پارٹی کے اندر سے اعتراضات سامنے آئے۔ سب سے زیادہ اعتراض عبدالقادر صاحب پر کیا گیا جنہیں بلوچستان سے تحریک انصاف کا ٹکٹ ملا تھا۔
تحریک انصاف والوں نے خود الزام لگا دیا کہ عبدالقادر کی واحد قابلیت اُن کی دولت ہے۔ اعتراضات اتنے شدید تھے کہ عمران خان نے فوراً ہی یہ ٹکٹ عبدالقادر سے واپس لے لیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں عبدالقادر نے کہا کہ عمران خان میرے لیڈر ہیں، اُن کا حکم سر آنکھوں پر۔ اگلے ہی دن وہ آزاد حیثیت میں امیدوار بن گئے۔
الیکشن سے چار دن قبل بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کو اسلام آباد سے کہا گیا کہ آپ نے عبدالقادر کو ووٹ ڈالنا ہے۔ اگر ووٹ عبدالقادر کو ہی دینے تھے تو پھر اُن سے تحریک انصاف کا ٹکٹ کیوں واپس لیا گیا؟ یہی صورتحال سندھ میں تھی جہاں تحریک انصاف نے سیف ﷲ ابڑو کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا اور ان صاحب پر تحریک انصاف کے ایک رہنما لیاقت جتوئی نے الزام لگا دیا کہ ابڑو نے یہ ٹکٹ 35کروڑ میں خریدا۔
خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کے کچھ امیدواروں پر حکمران جماعت کے اندر سے ایسے ہی الزامات لگائے گئے۔ یہاں پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر اتحاد کر لیا۔ پنجاب میں تحریکِ انصاف نے نسبتاً بہتر امیدواروں کو ٹکٹ دیےاس لئے ٹکٹوں پر اعتراض نہ ہوا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ناراض ارکانِ پنجاب اسمبلی نے میڈیا میں بزدار کواﷲ کا عذاب قرار دینا شروع کر دیا۔
اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنی نشستوں کی تعداد سے زیادہ امیدوار کھڑے کر دیے۔ مسلم لیگ (ق) نے بھی کامل علی آغا کو اپنا امیدوار بنا رکھا تھا۔ مسلم لیگ (ق) کے لئے کامل علی آغا کو سینیٹر بنوانا زیادہ مشکل نہ تھا کیونکہ تحریک انصاف کے کئی ناراض ارکان چوہدری پرویز الٰہی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے تیار تھے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف نے کامل علی آغا کو دونوں جماعتوں کا مشترکہ امیدوار بنا دیا۔ کامل علی آغا اب محفوظ ہو چکے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار سیف الملوک کھوکھر نے کچھ امیدواروں کو غیرمحفوظ کر دیا۔ گڑبڑ اتنی بڑھ گئی کہ چوہدری پرویز الٰہی نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت اور اپوزیشن کے سب امیدواروں کو بلا مقابلہ منتخب کرانے کی تجویز پیش کی۔
اس تجویز پر عملدرآمد کے لئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے امیدوار دستبردار کراتیں۔ چوہدری صاحب نے دونوں اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ قائم کیا۔ بہت بحث ہوئی۔ شکوے شکایتیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی مان گئی لیکن مریم نواز نہیں مانتی تھیں۔
مجھے مریم نواز نے خود بتایا کہ میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کو دستبردار کرانے کے سخت خلاف تھی لیکن جب پارٹی کے سینئر لوگوں نے اصرار کیا تو میں نے اُن کی بات مان لی۔ مسلم لیگ (ن) کے ان سینئر لوگوں کے ساتھ تحریک انصاف کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اگر کوئی رابطہ تھا تو وہ چوہدری پرویز الٰہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی پنجاب میں سینیٹ کے تمام امیدواروں کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس کا کریڈٹ چوہدری صاحب کو دیا اور تحریک انصاف کے سینیٹر ولید اقبال نے بھی اس کا کریڈٹ چوہدری صاحب کو دیا۔
چوہدری صاحب کو ملنے والا یہ کریڈٹ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ انہوں نے یہ کریڈٹ اپنے نام لگوانے کے لئے بڑے جتن کئے۔ بات نہ بنی۔ پھر ایک کالم لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ ’’ولید اقبال کا یہ کہنا کہ پنجاب میں بلا مقابلہ سینیٹرز منتخب ہونے کا کریڈٹ پرویز الٰہی کو جاتا ہے، قطعاً درست نہیں۔ یہ کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ہے‘‘۔ میں نے یہ کالم نہیں پڑھا تھا۔
لاہور سے ایک دوست نے فون کرکے توجہ دلائی کہ ’’یہ کالم پڑھئے، اس میں کچھ الفاظ آپ سے بھی منسوب ہیں‘‘۔ کالم پڑھ کر میں نے چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی تو وہ ہنسنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ جب تحریک انصاف کے ارکانِ پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ کو ملنے سے انکار کرنا شروع کیا تو وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نے مجھے بار بار فون کیا اور کہا کہ آپ کچھ کریں۔
چوہدری صاحب نے پوچھا کہ یہ کالم کس نے لکھا ہے؟ میں نے بتایا کہ ابھی پچھلے ہی مہینے وزیراعلیٰ پنجاب نے مجلسِ ترقی ادب کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر تحسین فراقی کو ہٹا کر وہاں اپنے ایک منظورِ نظر کو تعینات کیا ہے جن کو ایک سال کا کنٹریکٹ ملا ہے اور آپ کے خلاف یہ کالم اسی کنٹریکٹ ملازم نے لکھا ہے۔ چوہدری صاحب پھر سے ہنسنے لگے۔
کہاں اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والے ماہر اقبالیات ڈاکٹر تحسین فراقی اور کہاں بزدار صاحب کے مدح سرا... سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ جہاں وزیراعلیٰ پنجاب کے قلمی ہرکارے اپنے سینیٹر ولید اقبال کو غلط کہیں اور اسپیکر پنجاب اسمبلی سے اُن کا کریڈٹ چھیننے کی ناکام کوشش کریں وہاں کہنے والے یہی کہیں گے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔