Time 01 فروری ، 2020
بلاگ

یہ کمپنی کیوں نہیں چل سکتی؟

فائل فوٹو

ایک لطیفہ جسے ایک سال قبل اُستادِ مکرم سہیل وڑائچ صاحب نے بھی کالم کا حصہ بنایا تھا اور اس طالب علم نے بھی، آج اس قدر حسبِ حال بن گیا ہے کہ ہر روز ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔

لطیفہ یوں ہے کہ ایک نابینا شخص بچپن سے شراب کا رسیا بن گیا۔ پی پی کر اس قدر تجربہ کار ہو گیا کہ چکھتے ہی بتا دیتا کہ شراب کس قسم کی اور کس کمپنی کی ہے۔ ایک روز دوستوں نے شرارت میں اس کے لئے درجن بھر مختلف مشروبات کا کاک ٹیل بنا ڈالا اور پھر پیش کرتے ہوئے سوال کیا کہ وہ شراب کی کمپنی کا نام بتائے۔ وہ پیتار رہا اور کنفیوز ہوتا رہا۔

بوتل ختم کرکے نابینا شرابی کہنے لگا کہ لگتا ہے کوئی نئی کمپنی مارکیٹ میں آئی ہے۔ میں نام تو نہیں بتا سکتا لیکن نام جو بھی ہے لکھ کر رکھ لو یہ کمپنی چل نہیں سکتی۔

غور سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت (کمپنی) بھی ایسی ہی ایک کاک ٹیل ہے جسے گزشتہ انتخابات کے ذریعے مارکیٹ میں متعارف کرا کر قوم کو پلایا گیا لیکن بدقسمتی سے نابینا دوست کو پلانے والے کاک ٹیل کی بہ نسبت پی ٹی آئی کی حکومت کے کاک ٹیل کی حالت زیادہ خراب تھی۔

تب شرارتی دوستوں نے کسی کے انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ نابینا دوست کے ساتھ محض شرارت کی خاطر وہ کاک ٹیل بنایا تھا لیکن پی ٹی آئی کا کاک ٹیل مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی وغیرہ کے انتقام میں ہنگامی بنیادوں پر تیار کیا گیا۔

الیکشن سے قبل اس کاک ٹیل میں ملک کی بڑی بڑی مافیاز مثلاً شوگر مافیا، پراپرٹی مافیا، کارخانہ دار مافیا، اسمگلنگ مافیا، کراچی مافیا، کارپوریٹ سیکٹر مافیا اور دیگر مافیاؤں کو شامل کرایا گیا اور کاک ٹیل میں ان کا حصہ نمایاں ہے۔ دوسری طرف اس کاک ٹیل کی تیاری میں کئی دیگر ممالک کی لابیوں کا ذائقہ بھی بدرجہ اتم شامل ہے۔

انتخابات سے قبل اس کاک ٹیل میں مسلم لیگ(ق)، پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کی ٹیم کے مارکیٹ میں بدنام ہونے والے مشروبات کو بھی شامل کیا گیا تھا اور الیکشن کے قریب اس میں مسلم لیگ(ن) سے بھی خاطر خواہ زہریلے مشروب اٹھا کراسےکاک ٹیل کا حصہ بنا دیا گیا۔

لیکن اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انتخابات کے بعد اس کاک ٹیل میں باپ (BAP)اور مسلم لیگ(ق) کے بے ذائقہ قسم کے مشروبات کو بھی ڈال دیا گیا۔ ایم کیوایم کے تلخ ذائقے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے میٹھے ذائقے والے مشروبات کو بھی اس میں شامل کیا گیااور پھر اس کاک ٹیل کو قوم کے حلق میں انڈیل دیا گیا۔

بنیادی کمپنی یوں تو نوے کی دہائی میں مارکیٹ میں آئی تھی لیکن تب اس کے چیف ایگزیکٹو مقدار کے بجائے معیار پر زور دے رہے تھے اس لئے 2012 تک اسے مارکیٹ میں کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ پھر وہ مارکیٹ میں موجود قوتوں کے زیر اثر آگئے ۔

ان کے ساتھ معیار کے بجائے مقدار پر توجہ دینے کے اصول طے ہوئے اور مال کو سستے سے سستا بنا کر مارکیٹ میں لانے کا فیصلہ ہوا۔2013میں اس کمپنی کے کاک ٹیل کو پہلے خیبر پختونخوا میں لانچ کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہاں پر بھی اس نے عوام کی حالت غیر کردی تھی لیکن چونکہ مارکیٹنگ کے سارے مراکز پر قبضہ تھا، اس لئے باقی پاکستان کو غلط طور پر یہ باور کرایا گیا کہ پختونخوا میں اس کاک ٹیل کو پینے کی وجہ سے سب لوگ ایک منفرد اور انوکھے خمار میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

دوسری حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ پہلے سے قومی مارکیٹ میں موجود کمپنیوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے اس قدر زہریلا ثابت کیا جائے کہ لوگوں کا پختونخوا میں اس نئی کمپنی کے کاک ٹیل کی ناکامی کی طرف دھیان ہی نہ جائے۔ تب مارکیٹنگ اور پروپیگنڈے کے تمام عناصر کو یا تو قابو میں کرلیاگیا یا گمراہ کیا گیا اور یا پھر لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا گیا تھا۔

یوں قوم کو یہ باور کرایا گیا کہ اس کاک ٹیل کو پینے کے بعد نہ صرف پوری قوم خمار سے جھوم اٹھے گی بلکہ یہ اس کی ہر بیماری کے لئے تریاق بھی ثابت ہوگا۔لیکن اے بسا آروز کی خاک شدہ است۔ کاک ٹیل پینے کے بعد قوم کے کسی طبقے کو قے آنے لگی، کسی کا سر چکرانے لگا تو کوئی بخار میں مبتلا ہو گیا۔

خود کمپنی میں کام کرنےو الے پاگل ہوکر اچھل کود میں لگ گئے جبکہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور مالکان کے سر چکرانے لگے۔

بدقسمتی سے 2018 میں پوری قوت کے ساتھ لانچ ہونے کے بعد بھی چیف ایگزیکٹو نے مقدار کے بجائے معیار پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنے کاک ٹیل میں سے زہریلی مشروبات کو نکال دیتے اور اس میں صحت اور ذہن کے لئے مفید مشروبات کی مقدار بڑھاتے لیکن انہوں نے لانچنگ کے بعد بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔

اس سے بڑی غلطی وہ یہ کررہے ہیں کہ اپنے کاک ٹیل یا پروڈکٹ پر توجہ دینے کے بجائے ابھی تک پہلے سے ناکام ہونے والی کمپنیوں کی خرابیاں بیان کر رہے ہیں حالانکہ قوم کے حلق میں اس وقت ان کمپنیوں کانہیں بلکہ ان کا کاک ٹیل پھنسا ہوا ہے۔ اپنے کاک ٹیل پر رتی بھر توجہ دینے اور اس کے زہر کو نکالنے کے بجائے وہ اب مارکیٹنگ والوں پر برہم ہیں۔

مارکیٹنگ والے چیخ رہے ہیں کہ زہریلا کاک ٹیل پینے کی وجہ سے گھر گھر لوگ بیمار پڑے ہیں اور کمپنی کو گالیاں پڑ رہی ہیں لیکن چیف ایگزیکٹو کا اصرار ہے کہ مارکیٹنگ والے حسبِ سابق اس کاک ٹیل کو تریاق اور سب سے زیادہ خمار دینے والا مشروب ثابت کردیں۔

ہم جیسے چند بدقسمت تو مارکیٹ پر اس کاک ٹیل کے چھا جانے سے قبل بھی پکار رہے تھے کہ یہ کمپنی نہیں چل سکتی لیکن اب تو عام آدمی بھی چیخنے لگا ہے کہ کمپنی نے حالت خراب کردی۔

نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کمپنی میں کام کرنے والے فواد چوہدری اور عاطف خان جیسے اہم عہدیدار بھی پکار اٹھے ہیں کہ یہ کمپنی نہیں چل سکتی۔ کمپنی کے چلنے کا تھوڑا ساامکان صرف اس صورت میں بن سکتا ہے کہ وہ کاک ٹیل چھوڑ کر کسی ایک قسم کا مشروب پیدا کرنا شروع کردے۔

چیف ایگزیکٹو دوسروں کے مشروبات کو گالیاں دینے کے بجائے اپنے مشروب کے معیار پر توجہ دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دن رات مارکیٹنگ پر توجہ دینے کے بجائے مال کی تیاری پر توجہ مرکوز کرے لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اس لئے ہم بھی اس نابینا کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ کمپنی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔