02 مارچ ، 2021
ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان آج ملک بھر میں بھینس کا دن منا رہی ہے۔
ایسوسی ایشن کے روح رواں شاکر عمر گجر نے آج بھینس کا دن منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد عوام میں بھینس کی اہمیت اور افادیت کے متعلق شعور بیدار کرنا ہے۔
ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کیے گئے سال 2006 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں بھینسوں کی تعداد 38.8 ملین ہے اور پنجاب کے بعد صوبہ سندھ 10.8 ملین کے حساب سے بھینسیں رکھنے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
شاکر عمر گجر کے مطابق پاکستان میں دودھ کی سالانہ پیداوار تقریبا 35.136 بلین لیڑ دودھ ہے۔
ڈیری اینڈ کیٹل ایسوسی ایشن نے دودھ کی پیداوار اور بھینسوں کی تعداد کو بڑھانے کیلئے کوششوں کا اعلان کیا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ جانور کبھی مالی ضرورت اور کبھی شغل کے طور پر قربان کیا جاتا ہو ایسے وقت میں خصوصاً چوپائیوں سے آگاہی بیدار کرنا ایسوسی ایشن کا اولین فریضہ ہے۔
شاکر عمر گجر کے مطابق یہ چوپائے انسانوں کے دودھ اور گوشت کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
شاکر عمر کے مطابق بھینس دنیا میں نایاب ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے چند ایک ممالک میں ہی پائی جاتی ہیں مگر بدقسمتی آج ہم اس بلیک گولڈ کو ختم کرنے کے درپے ہیں بوجہ حکومتی اقدامات کی کمی اور عوامی سطح پر لاشعوری کہ یہ جانور جو کہ ایک کنبے کو کم و بیش 20 سے 25 سال فائدہ پہنچا سکتا ہے محض اوسطاً اپنی عمر کے پانچویں سال میں ہی ذبح کردیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بھینس کی کمیابی کا شکار ہیں اور روز بروز منڈیوں میں بھینس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔
شاکر عمر کا کہنا ہے کہ بھینس کے مقابلے میں دنیا میں کسی بھی جانور کا دودھ دستیاب نہیں۔ فیٹ ریشو اور گاڑھے پن میں اس کا کوئی ثانی نہیں اور ہم فخر سے کہ سکتے ہیں برصغیر میں دنیا کا بہترین دودھ پیدا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں دودھ مارکیٹ میں گائیوں کا راج ہے مگر برصغیر میں بھینسوں کے ذریعے گوشت اور خاص کر دودھ کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔
عالمی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں گائے کے دودھ کی پروموشن کر کے بھینس جیسے جانور کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے دودھ کی مارکیٹ بنا سکیں اور بادی النظر میں ہمارے فارمر بھائی بھینس کی نسل کشی کرکے ان کمپنیز کے آلہ کار بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایک امر اور قابل غور ہے کہ کراس بریڈنگ نے ہماری بھینس اصل جین معدوم کردیا ہے۔ پاکستان کا فخر نیلی راوی اور کنڈی بھینس اپنی اصل نسل(بریڈ) کی شکل میں آٹے میں نمک برابر ہے یہ وہ ایریا ہے جہاں ہمیں حکومتی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ فارمرز ٹریننگ، بریڈ امپروومنٹ پروگرامز اور خشک جانوروں کی چرائی اور رہائش کے مخصوص علاقے مہیا کرکے ہم اس بھینس اور اپنے آنے والی نسلوں پر بھی احسان کرسکتے ہیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم دیگر شعبوں کی طرح لائیو اسٹاک سکیٹر میں بھی مغربی ممالک پر انحصار کریں گے۔
شاکر عمر گجر کے مطابق آج نیشنل بفلو ڈے کے دن ہم اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ ہم قیمتی نسل کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور قیمتی بچے کو بھی سلاٹرنگ سے بچانے کی کوشش کریں گے اور انہیں پال کر دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔