04 مارچ ، 2021
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے حوالے سے جو کچھ سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل سامنے آیا، اُسے دیکھتے ہوئے گیلانی صاحب ووٹنگ سے پہلے ہی اخلاقی طور پر یہ انتخاب ہار چکے تھے۔
ووٹنگ کے روز یعنی بروز بدھ فیصلہ جو بھی آتا ہے، کون جیتتا ہے، کون ہارتا ہے وہ سیاسی طور پر تو اہم ہوگا لیکن جو کچھ ایک ویڈیو اور ایک آڈیو لیک کے ذریعے منگل کے دن سامنے آیا، وہ انتہائی شرمناک تھا اور اُس نے ان سینیٹ انتخابات کو ایک بار پھر داغدار کر دیا۔ ویڈیو میں علی حیدر گیلانی پی ٹی آئی کے چار ایم این ایز کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سکھا رہے تھے جو اُنہوں نے لیک وڈیو کے سامنے آنے کے بعد تسلیم بھی کر لیا۔
لیک آڈیو میں علی گیلانی سندھ کے وزیر ناصر حسین شاہ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے اراکین کے ’’پیکج‘‘ کو ڈسکس کر رہے تھے۔ اس آڈیو میں پی ٹی آئی ممبرانِ اسمبلی کی ناصر حسین شاہ سے بات چیت بھی سنوائی گئی۔ ناصر شاہ نے اگرچہ کہا کہ اس آڈیو میں اُن کی آواز نہیں بلکہ مشورہ دیا کہ علی گیلانی سے پوچھیں کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں لیکن بظاہر علی گیلانی سے وہی بات کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔
اس آڈیو کی حقیقت کو جاننے کے لئے الیکشن کمیشن کو فرانزک ایکسپرٹ سے مدد لینی چاہئے۔ ان دونوں وڈیو اور آڈیو میں گیلانی صاحب کے بیٹے کا اہم کردار ہے جس کے باعث یوسف رضا گیلانی کا اپنا کردار مشکوک ہو گیا۔ اگرچہ سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے بھی ووٹوں کی خرید و فروخت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں لیکن سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل لیک ہونے والی ویڈیو اور آڈیو نے ایک بار پھر سیاست اور سیاستدانوں کو داغدار کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ الیکشن جیتنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بکنے والے اکثر اراکینِ اسمبلی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جبکہ خریداروں میں پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ میری ذاتی رائے میں لیک ویڈیو آڈیو کے سامنے آنے کے بعد یوسف رضا گیلانی الیکشن لڑنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے تھے لیکن اُنہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور افسوس کی بات یہ کہ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں بشمول ن لیگ نے اُنہیں ووٹ ڈالا۔
کیا ن لیگ نے اس مشکوک عمل میں حصہ ڈال کر ووٹ کو عزت دی؟ یہ ن لیگیوں اور اُن کی اعلیٰ قیادت کو سوچنا چاہئے۔ یعنی جس طرف دیکھیں حالات ایک سے ہیں۔ ایک طرف اگر اپوزیشن ووٹ خریدتے ہوئے دکھائی دی تو دوسری طرف حکومتی جماعت خصوصاً پی ٹی آئی والے، بکتے ہوئے نظر آئے اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب کئی ہفتوں سے اسی موضوع یعنی سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ عدالت، قومی سیاست اور میڈیا کا فوکس رہا۔
عدلیہ کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں جو بحث کی گئی وہ سینیٹ کے ووٹنگ کے طریقہ کار کو بدلنے اور اُس میں اصلاحات لانے کے متعلق تھی۔ کسی نے یہ نکتہ نہیں اُٹھایا نہ اس بات پر غور کیا کہ آخر ممبرانِ اسمبلی بکتے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ووٹ خریدنے والوں کو شرم آتی ہے اور نہ بکنے والوں کو اور یہ بکنے بکانے والے تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں موجود ہیں۔
اگر کسی سیاسی جماعت کے بارے میں ایسی شکایت سننے کو نہیں ملی تو وہ جماعتِ اسلامی ہے جس کی موجودگی اسمبلیوں میں بہت کم ہے۔ ایک تو عوام کو سوچنا چاہئے کہ آخر کیوں وہ ایسے افراد کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جو بکنے کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے اہم سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئینِ پاکستان کی روح کے مطابق صرف اُنہی افراد کو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کا ٹکٹ دیں جو باکردار ہوں، اچھی شہرت کے مالک اور باعمل مسلمان ہوں، نمازی ہوں اور دوسرے اسلامی فرائض کو سرانجام دینے کے حوالے سے جانے جاتے ہوں، سچے اور ایماندار ہوں اور بڑے گناہوں اور اخلاقی برائیوں سے دور رہتے ہوں اور اچھی شہرت رکھتے ہوں۔
اگر آئین کے آرٹیکل 62-63پر سختی سے عمل کیا جائے تو پھر صرف باکردار اور باعمل مسلمان ہی سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بن سکتے ہیں۔ جب باکردار قیادت اسمبلیوں میں پہنچے گی تو اُنہیں پیسوں کی بنیاد پر خریدنا مشکل ہو گا، سیاست صاف اور با عزت ہو گی لیکن افسوس اس طرف نہ تو عدلیہ کی توجہ ہے نہ ہی الیکشن کمیشن کی، سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما تو کردار کی بجائے Electablesکو ٹکٹ دیتے ہیں۔
کوئی اخلاقی طور پر اور کردار کے حوالے سے کتنی ہی خراب شہرت کیوں نہ رکھتا ہو، اگر وہ Electableہے تو تمام سیاسی جماعتیں، بےشک وہ پی ٹی آئی ہو، پی پی پی یا ن لیگ اُسی کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ اس لئے اصلاحات یا قانون کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہونے والا۔ سیاست کی گندگی کو اگر صاف کرنا ہے تو آئین کی روح کے مطابق باکردار اور با عمل مسلمان کو ہی سینیٹ اور اسمبلیوں میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔