24 مارچ ، 2021
اُس رات چک شہزاد کے فارم ہاؤس پر ایسا کیا ہوا کہ وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ لینے، حکومت گرانے کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ نہ صرف 26مارچ کو ہونے والا لانگ مارچ ملتوی ہوگیا بلکہ 11جماعتوں کا اتحاد سُکڑ کر نو تک پہنچ گیا۔ تحریک چلنے سے پہلے ہی تحلیل ہوگئی ہے۔ اب ساری صورتحال کے ذمہ داروں کا تعین کیا جارہا ہے مگر زبان میں تلخی بڑھتی نظر آرہی ہے۔
میں تو اسلام آباد صحافیوں کے اپریل میں ہونے والے لانگ مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں گیا تھا سوچا اپوزیشن کے لانگ مارچ کی تیاری دیکھ لوں مگر یہاں تو معاملہ ہی پلٹ چکا تھا۔ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے والے اب زرداری صاحب سے استعفوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ پی پی پی کہاں اس پر تیار ہوتی وہ تو آج تک اِس بات پر افسردہ ہے کہ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن سے کیوں باہر رہی۔
مجھے نہیں پتا کہ مریم نواز صاحبہ اور مولانا فضل الرحمٰن یہ کیوں سمجھ رہے تھے کہ پی پی پی استعفے دے گی؟ سندھ حکومت نہ چھوڑنا تو الگ بات ہے، استعفے دینا اُن کے سیاسی بیانیے کی نفی ہے۔ سخت مزاحمت کے ادوار میں بھی انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا۔
اُس رات اجلاس کی خبریں مسلسل لیک ہورہی تھیں مگر پھر بھی ایک تجسس تھا کہ دیکھیں آخری اعلان کیا کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن باہر نکلے تو پہلی بار میں نے صحافیوں کو دیکھ کر اُن کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ وہ تو خیر میڈیا سے مخاطب ہی نہیں ہونا چاہتے تھے مگر مریم نواز اور یوسف رضا گیلانی کی درخواست پر یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’’پی پی پی نے استعفیٰ کے معاملے پر وقت مانگا ہے لہٰذا 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی کیا جاتا ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رات آصف زرداری صاحب کی تقریر سخت اور لہجہ تلخ تھا شاید وہ سمجھ رہے تھے کہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کچھ معاملات بالا ہی بالا طے کرنا چاہتے ہیں جس طرح میاں صاحب کی چند سخت تقاریر میں استعفوں پر زور دیا گیا تو انہوں نے میاں صاحب کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔
یہ بات میاں صاحب کو پسند نہیں آئی مگر جب تحریک اور قربانی کی باتیں ہوں گی تو سوال تو اُٹھے گا۔ چلیں میاں صاحب نہ سہی اسحاق ڈار، حسین اور حسن نواز آجائیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں نے ایک دوسرے کو اتنے زخم لگائے ہیں کہ وقتی مرہم صرف وقتی آرام ہی دیتا ہے۔ چوہدری اعتزاز کا معاملہ تو کچھ اور ہے جیسا کہ ایک زمانے میں پی پی پی کے حوالے سے چوہدری نثار کا سخت رویہ تھا مگر دونوں جماعتیں جب بھی اکھٹا ہوئیں ماضی کو بھلا نہ پائیں۔
مجھے ذاتی طور پر مسئلہ پی ڈی ایم کے بنیادی بیانیے میں نظر آتا ہے اور اب نظر یہ آرہا ہے کہ زرداری صاحب نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں ۔ گو کہ مولانا تمام تر ناکامیوں اور مایوسی کے باوجود پی پی پی کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ PDM سمجھتی ہے کہ 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور عمران خان ’’سلیکٹڈ‘‘ ہیں لہٰذا انہیں استعفیٰ دینا چاہئے اور نئے انتخابات ہوں۔
اس بیانیہ میں 2018 میں تو جان تھی اور موقع بھی کہ اُس وقت تحریک چلائی جاتی اور حلف ہی نہ لیا جاتا۔ مگر آج یہ محض ایک نعرے سے زیادہ نہیں۔ یہ ایک انتہائی کمزور بیانیہ ہے اُسی طرح جس طرح 2013 کے بعد تحریک انصاف کا بیانیہ کمزور تھا۔ اُس وقت پی ٹی آئی استعفوں کے معاملے میں کنفیوژ تھی اور آج پی ڈی ایم۔ اُس وقت خیبرپختونخوا کی حکومت ختم کرنے پر پرویز خٹک تیار نہیں تھے اور اب زرداری صاحب۔
اِس حکومت کو ڈھائی سال ہوچکے ہیں، اس وقت اسے گرا کر آپ کیا کارنامہ انجام دینا چاہتے ہیں؟ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ زور زبردستی سے ہٹانے پر خان ہیرو بن جائے گامگر پی پی پی کا ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کا بیانیہ بھی کمزور ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ اگر پی پی پی ڈی ایم کا حصہ نہ رہی تو پی ٹی آئی اور پی پی پی بھی قریب آسکتی ہیں کیونکہ عمران خان اور طاقتور حلقوں کا تضاد مسلم لیگ (ن) اور شریفوں سے ہے، زرداریوں سے نہیں۔ ایک بار پی پی پی اور پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ اُن کا آپس میں کوئی بڑا تضاد نہیں۔ بہت سے انصافین ماضی میں جیالے رہے ہیں جن میں شاہ محمود قریشی، فردوس عاشق اعوان، پرویز خٹک اور فواد چوہدری شامل ہیں۔
پی پی پی کو پنجاب میں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں جگہ چاہئے۔ عمران خان کے سابق دستِ راست جہانگیر ترین سیاست سے نااہل ہوئے ہیں، باہر نہیں۔ آئندہ الیکشن میں اُن کا کردار اہم ہوگا۔زرداری صاحب کی خان صاحب پر مہربانیاں بھی رہی ہیں۔ چاہے معاملہ 2018 سے پہلے بلوچستان میں مسلم لیگ کو ’’لاپتہ‘‘ کرکے جام کمال کو لانے کا ہو یا بلوچستان عوامی پارٹی بنوانے کا۔
اس وقت بھی استعفوں کے معاملے پر بحران کا فائدہ سیاسی طور پر خان صاحب کو ہی جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں آنے والے وقت میں پی پی پی کہاں کھڑی ہوگی ’’انصاف کے ساتھ یا تاریخ کے ساتھ‘‘۔رہ گئی بات ہمارے مولانا فضل الرحمٰن کی۔ پچھلے ڈھائی سال سے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے عمران کو ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے چاہتے تھے اپوزیشن حلف نہ لے نتائج مسترد کرکے تحریک چلائے۔ پھر بات استعفے دے کر تحریک چلانے پر آئی اور بیچ میں یہ کہہ کر اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کیا کہ زرداری صاحب اور میاں صاحب نے یقین دہانی کروائی تھی۔ اب تو شاعر سے معذرت کے ساتھ یہی کہوں گا کہ مولانا یہ کہتے ہوئے روانہ ہوئے کہ ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
نہ لوگ ساتھ آئے نہ قافلہ بن پایا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔