سیاست کے گناہوں کی سزا

پی ڈی ایم کا جنازہ تو نکلا ہی، اب جنازے کی توہین بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر کی جارہی ہے۔ اکثریت کے باوجود سینیٹ کا چیئرمین بننے کی توفیق نہ ہوئی تو اس کے قائد حزب اختلاف کی نامزدگی پہ باہم سر پھٹول سیاسی بالشتیوں کے لیے تماشہ بن گئی۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف جیل میں ہے تو سینیٹ میں قائدحزب اختلاف نے کیا تیر مار لینا تھا۔ 

ویسے بھی ہر  دو قائدین حزب اختلاف ہیں تو 1985کی غیر سیاسی اسمبلی کی پیداوار اور سلیکٹڈ سیاست کے چٹے بٹے۔ اوپر سے بچگانہ سیاست کی بے وقت راگنیاں، اس پر ہمارے مولانا فضل الرحمان ہاتھ ملتے رہ نہ جائیں تو کسے ٹکر ماریں لیکن سازش کہیں گہری ہے ، رفتہ رفتہ سامنے آئے گی، کہیں سارا سیاسی نظام ہی سلیکٹڈ ہوکر نہ رہ جائے۔ بھلا کوئی پوچھے کہ یوسف رضا گیلانی کا پی ڈی ایم کی قومی اسمبلی میں اقلیت کے باوجود انتخاب جیتنا کسی جمہوری پیمانے پہ درست تھا؟ اور پھر چیئرمین کے انتخاب میں اکثریت کے باوجود ہارنا اور صادق سنجرانی کا جیتنا کیسے شریف زادی پی ڈی آئی کی اصولی کامیابی تھی؟ بھلا استعفوں پہ اتنا اصرار کیوں کیا گیا؟ جو ایٹم بم حکومت پہ گرایا جانا تھا وہ پی ڈی ایم کے ہاتھوں ہی میں پھٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی لانگ مارچ کی تحریک بھی کہیں ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ 

سیاست کا یہ اناڑی پن، اناڑی حکومت کے خوب کام آیا، لیکن اب اس کے پاس جو اپوزیشن مخالف ڈگڈگی تھی وہ بھی ٹھس ہوئی۔ میدان خالی ہے تو اب یہ اپنے ہی ناک کے نیچے ہونے والی ہوشربا کرپشن پہ اپنی ہی مافیاز کے خلاف ’’محاذ آرا‘‘ ہو۔‎

خیر سے شوگر ملز کارٹل کو ایف بی آر کی جانب سے 469 ارب روپے کے ٹیکس نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور 110 ارب روپے کی مالیت کی سٹہ بازی کا بھید پانے کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کر دیا گیا ہے۔ اس شوگر مافیا کے سرغنوں میں وفاقی وزیر خسرو  بختیار، پی ٹی آئی کے بڑے لیڈر جہانگیر  ترین اور بڑا چھوٹا شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ 

جیو کے شاہزیب مبارک کے مستحق ہیں کہ وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر اور  سیکرٹری پٹرولیم کو برطرف کرتے ہوئے پٹرولیم کے کاروبار میں سیکڑوں ارب کے گھپلوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ 

لگتا ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف احتساب کی منتقمانہ مہم میں پشیمانی اٹھانے کے بعد احتساب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس تعمیرات کے شعبے پہ معاشی بحالی کے لیے مکمل تکیہ کیا جا رہا تھا اب اس پر ایک تاریخی یوٹرن لے لیا گیا ہے۔ 20ہزار سے زائد پراپرٹی اور تعمیرات کے شعبے سے متعلق ٹیکس ریٹرنز والے سٹیٹ ایجنٹس اور سٹیٹ بلڈرز کو 4 صفحات پر مشتمل 86 سوالات پر مبنی سوالنامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ 

پہلے وزیراعظم نے تاریخ کی سب سے بڑی کالے دھن کو سفید کرنے والی سکیم جاری کی تھی کہ جو بھی اسٹیٹ اور تعمیراتی میدان میں پیسہ لگائے گا اس سے کوئی سوال پوچھا جائے گا نہ کوئی کارروائی ہوگی۔ یہ سکیم 30 جون تک تھی اور تاریخ بڑھائے جانے پہ مشاورت ہو رہی تھی کہ فائنانشل ٹاسک فورس نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر فائنانسنگ ٹیررازم مہم کے تحت حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ تعمیرات کے شعبہ سے متعلق مافیاز کے کالے دھن اور ان کے گاہکوں کی دولت کا پتہ چلائے۔ اس کے ساتھ ہی تعمیراتی شعبے سے معاشی اُڑان کا خواب چکنا چور ہوا۔

یہ ساری مافیاز پاکستان کے مفت خور کرایہ دارانہ سرمایہ داری نظام کی قوت محرکہ ہیں، جو پیداواری نظام ہائے پیداوار کی بجائے محض کرایہ خوری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اب ایسے غیر پیداواری اور مفت خور معاشی نظام کے تحت کاروبار ریاست تو چلنے سے رہا۔ لہٰذا اس خلا کو ہماری وائسرائی نوکر شاہی نے عالمی سامراج کا کاسہ لیس بن کر اور قرض خوری سے پورا کیا۔ 

اب قرض خوری ایک ایسے پھندے میں بدل گئی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے وصول کردہ وفاقی ریونیوز (آمدنی) فقط قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی بمشکل کافی ہیں۔ دفاع، ریاستی کاروباراور ترقیاتی منصوبے سب بیرونی و اندرونی قرضوں کے مرہون منت ہیں۔

‎وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بھی سینیٹ کے انتخابات میں ناکامی کا بڑا خوفناک بدلہ لیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ چار جائزوں میں موصوف نے وہ تمام شرائط مان لی ہیں جو پہلے کبھی کسی نے نہیں مانی تھیں۔ ملنے تو تھے دو ارب ڈالر لیکن ملے صرف 50 کروڑ ڈالر۔ اس کے ساتھ ہی بانڈز کے ذریعے دو ارب ڈالرز کے نئے قرضوں کے حصول کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ اب بیچارے اسد عمر کی راتوں کی نیند حرام نہیں ہوگی تو حیرانی ہوگی۔ 

آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے ریاست پاکستان سے ناک رگڑوائی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کو پاکستانی ریاست کی حاکمیت سے آزاد کرتے ہوئے اس کی نکیل آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی ہے، جیسے مغلوں نے مالیاتی نظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کیا تھا۔ اب مالی و مالیاتی فیصلے کرنے، شرح تبادلہ، شرح سود اور شرح افراط زر طے کرنے کا مکمل اختیار سٹیٹ بینک کو دے دیا گیا ہے۔

حکومت کو بجٹ خسارے کے لیے کمرشل بینکوں سے قرض لینا ہوگا اور بیرونی قرضوں کی گارنٹی بھی سٹیٹ بینک نہیں دے گا۔ کیسا غضب ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینک ڈالرز،  یوروز اور پاؤنڈز و دیگر کرنسیاں چھاپ چھاپ کر معیشتوں کی بحالی کے جتن کر رہے ہیں اور لوگوں کو سوشل سکیورٹی دے رہے ہیں (جو بجائے خود آزاد منڈی کے مذہب کی تنسیخ ہے) اور دست نگر ممالک کا نیو لبرل آرڈر کے تحت گلا گھونٹا جارہا ہے۔ 

آئی ایم ایف سے دیگر شرائط کے تحت نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) کو بجلی کے نرخ طے کرنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ اگلے چھ ماہ میں بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں تقریباً 9 روپے کے اضافے سے صارفین پہ 1009 ارب روپے کا بوجھ لادا جا رہا ہے، 10فیصد سرچارج اس کے علاوہ ہوگا۔ 

اس طرح سوئی ناردرن گیس کمپنی نے گیس کے نرخوں میں 220 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے اور سوئی ساؤدرن گیس کمپنی نے بھی گیس کی قیمت بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔  ایک منی بجٹ بذریعہ آرڈیننس آگیا ہے۔ 140 ارب کے استثنیٰ ختم ہوگئے اور  اگلے بجٹ میں 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے پہ اتفاق ہوا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اداراتی و مالیاتی کٹوتی کی جارہی ہے، جبکہ نوکر شاہی پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں کسی بہ معنی اصلاحات کی بجائے اس پر اپنا کرپٹ کنٹرول برقرار رکھنے پہ مصر ہے۔ ‎معاشی نظام میں کرپشن کی تطہیر قابل تعریف ہے، لیکن اداراتی اصلاحات کے بغیر یہ ایک وقتی ڈرامہ بازی ہوگی۔

کالم ختم کرتے ہوئے مقہور پی ڈی ایم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ان حقیقی عوامی معاملات پہ کب توجہ دے گی۔ بھلے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہوتا یا پیپلزپارٹی کا، عوام کو اس سے کیا غرض۔ بیچارے عوام تو سیاست کے گناہوں کا خمیازہ بھگتتے رہے اور بھگتتے رہیں گے ۔ کوئی تو کہیں سے اُٹھے نعرہ عوامی سماجی حق لے کر کہ ایک چنگاری پورے گلستان کو منور کر سکتی ہے۔

مزید خبریں :