بلاگ
Time 29 مارچ ، 2021

باکمال شاعر لاجواب اپوزیشن لیڈر

فائل فوٹو

یوسف رضا گیلانی بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ 1985میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ پاکستانی سیاست میں کئی بیماریوں کو متعارف کروایا۔ ان غیرجماعتی انتخابات میں یوسف رضا گیلانی رکنِ قومی اسمبلی اور نواز شریف رکنِ پنجاب اسمبلی بن گئے۔

بعد ازاں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے یوسف رضا گیلانی کو وفاقی وزیر اور جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا۔ جنرل ضیاء کی چھتری تلے بننے والی مسلم لیگ میں ان دونوں کا اپنا اپنا مقام تھا۔ 1988 کے انتخابات سے قبل گیلانی صاحب پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔

جب پارٹی ٹکٹوں کا فیصلہ ہو رہا تھا تو پیپلز پارٹی ضلع ملتان کے صدر الطاف کھوکھر نے یوسف رضا گیلانی کی بجائے ریاض قریشی کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی لیکن فیصلہ گیلانی صاحب کے حق میں ہو گیا۔ الیکشن میں گیلانی صاحب کے مقابلے میں نواز شریف بھی کود پڑے لیکن ملتان میں انہیں یوسف رضا گیلانی نے شکست سے دوچار کیا۔ 

مرکز میں محترمہ بےنظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے گیلانی صاحب کو ان کی خواہش پر وہی وزارتیں دیں جو جنرل ضیاء کے دور میں بھی ان کے پاس تھیں۔ پنجاب میں نواز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف میں شدید محاذ آرائی شروع ہو گئی۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نواز شریف کو طاقتور اداروں کی حمایت حاصل تھی لیکن گیلانی صاحب کا کمال دیکھئے کہ وہ مرکز اور پنجاب میں مفاہمت کرانے نواز شریف کے پاس پہنچ گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب مرکزی حکومت شریف خاندان کے کاروبار کو تباہ کرنے پر تلی بیٹھی تھی اور پنجاب حکومت ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا رہی تھی۔ نواز شریف مرکزی حکومت کے ساتھ مفاہمت کیلئے تیار تھے لیکن انہیں فریقین کے مابین کسی ضامن کی تلاش تھی۔ اس زمانے میں صدر مملکت بہت طاقتور ہوا کرتے تھے اور ذرا سی ناراضی پر اسمبلیاں توڑ ڈالتے تھے۔

نواز شریف اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو قابلِ اعتماد ضامن نہیں سمجھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو اپنا ضامن بنا دیا۔ شرط صرف یہ تھی کہ اگر وزیراعظم نے دوبارہ پنجاب حکومت کے ساتھ وعدہ خلافی کی تو گیلانی صاحب کو پیپلز پارٹی چھوڑنا ہو گی۔

جب محترمہ بےنظیر بھٹو کو پتہ چلا کہ نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کو اپنا ضامن بنایا ہے تو وہ حیران رہ گئیں۔ گیلانی صاحب جب بھی اپنے کمالات سے انہیں حیران کرتے تو وہ بڑی معصومیت سے پوچھتیں کہ یہ کیسے ہوا؟ گیلانی صاحب تفصیل میں جانے کی بجائے انہیں کوئی نہ کوئی شعر سنا دیتے۔ محترمہ یہ سمجھنے لگیں کہ گیلانی صاحب کے پاس نا صرف کوئی روحانی طاقت ہے بلکہ وہ بہت بڑے شاعر بھی ہیں۔

گیلانی صاحب کا مزید کمال یہ تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان ضامن بننے کے بعد بھی دونوں میں معاملات ٹھیک نہ ہوئے۔ نہ گیلانی صاحب نے پیپلز پارٹی چھوڑی نہ نواز شریف نے طاقتور اداروں کے ساتھ مل کر سازشیں کرنا چھوڑیں اور آخر کار صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

1990میں نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ 1993میں غلام اسحاق خان نے انہیں بھی چلتا کیا اور نئے انتخابات میں محترمہ بےنظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔ اس مرتبہ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو اسپیکر قومی اسمبلی بنا دیا۔ ایک دن وزیراعظم صاحبہ نے شیخ زین بن سلطان النیہان کے اعزاز میں ایک ظہرانہ دیا۔

وزیراعظم مہمان کے دائیں اور گیلانی بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ وزیراعظم نے بڑے فخر سے شیخ زید کو بتایا کہ میرے اسپیکر صاحب کا تعلق ایک بڑے روحانی خانوادے سے ہے اور یہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔

شیخ زید نے فوراً پوچھا کہ آپ انگریزی میں شاعری کرتے ہیں یا اردو میں؟ گیلانی صاحب نے فٹ سے جواب دیا میں دونوں زبانوں میں شاعری کرتا ہوں۔ شیخ زید نے پوچھا کہ کیا آپ رومانوی شاعری کرتے ہیں؟ گیلانی صاحب نے فٹ سے ہاں میں جواب دیا۔ شیخ زید نے فرمائش کی کہ اپنا تازہ کلام سنائیے۔ گیلانی صاحب نے کسی شاعر کا یہ شعر سنایا؎

تجھے چاہا تیری دہلیز پر سجدہ نہ کیا

وہ میرا عشق تھا یہ میری خودداری تھی

اب مسئلہ یہ تھا کہ اس شعر کا ترجمہ کون کرے؟ تو جناب اس شعر کا ترجمہ آصف علی زرداری نے کیا۔ نجانے شیخ صاحب کو کیا سمجھ آئی انہوں نے فرمایا ’’جناب اسپیکر! آپ کی شاعری میں تو بڑا تکبر ہے‘‘۔ وزیراعظم صاحبہ حالات کی نزاکت بھانپ چکی تھیں انہوں نے موضوع بدل دیا۔

اس کہانی کا کلائمیکس یہ ہے کہ جب شیخ زید کو ایئر پورٹ پر الوداع کیا جا رہا تھا تو انہوں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ مجھے اپنا دیوان ضرور بھجوائیے گا۔ گیلانی صاحب نے مسکرا کر وعدہ کیا جی ضرور بھجواؤں گا۔

مہمان رخصت ہو چکا تو گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین نے مشورہ دیا کہ بازار سے کسی کا بھی دیوان خریدیں، اس پر اپنی تصویر لگائیں اور بھجوا دیں۔ معلوم نہیں کہ گیلانی صاحب نے اس مشورے پر عمل کیا یا نہیں۔ میں نے یہ واقعہ اس لئے بیان نہیں کیا کہ یہ ناچیز انہیں جعلی شاعر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔

یہ واقعہ تو انہوں نے خود اپنی کتاب ’’چاہِ یوسف سے صدا‘‘ میں لکھا تھا۔ میں تو صرف ان کے کمالات بیان کر رہا ہوں۔ کبھی نواز شریف نے انہیں اپنا ضامن بنایا تھا پھر اسی نواز شریف نے انہیں سپریم کورٹ کے ذریعہ نا اہل کرا دیا۔ کچھ سال گزرے اور 3 مارچ 2021 کو وہی گیلانی صاحب نواز شریف کی حمایت سے سینیٹر بن گئے۔ نواز شریف نے اپنی تمام غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی لیکن گیلانی صاحب کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کا شوق چرا گیا۔

راجہ پرویز اشرف نے مسلم لیگ ن سے وعدہ کیا تھا کہ اگر گیلانی پی ڈی ایم کے امیدوار ہونگے تو اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن سے ہو گا۔ گیلانی اپنی پارٹی کی غلطی سے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن نہ جیت سکے۔ انہیں بڑا ظرف دکھانا چاہئے تھا۔ وعدہ پورا کرنا چاہئے تھا۔ جب مسلم لیگ ن نے انہیں بار بار وعدہ یاد دلایا تو گیلانی صاحب بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ووٹوں سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ کمال یہ ہوا کہ باپ والوں نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں صادق سنجرانی کو ووٹ ڈالا اور اپوزیشن لیڈر کیلئے گیلانی صاحب کی حمایت کر دی۔

اندر کی خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پار ٹی میں لڑائی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کسی نہ کسی طرح عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتی تھی۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ یہ خواہش پیپلز پارٹی کی نہیں بلکہ کسی اور کی ہے اور وہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر مسلم لیگ ن کی جڑیں کاٹیں گے۔

نواز شریف نے اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور پیپلز پارٹی پر اسمبلیوں سے استعفوں کیلئے دباؤ ڈالا۔ اس لڑائی کی اصل وجہ کچھ بھی ہو لیکن عوام الناس میں اسکے ذمہ دار یوسف رضا گیلانی ہیں جو مسلم لیگ ن کے ذریعہ سینیٹر بنے اور پھر ’’باپ‘‘ کی مدد سے مسلم لیگ ن کو نیچا دکھا دیا۔ وہ جیسے شاعر ہیں ویسے ہی اپوزیشن لیڈر ہوں گے کیونکہ اب ان کی سیاست ایک ایسے باپ کی مرہونِ منت ہے جس کا دستِ شفقت حاصل کرنے کے بعد وہ ایک سرکاری اپوزیشن لیڈر کہلائیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔