سڑکیں ہیں یا قتل گاہیں؟

فائل فوٹو

ابھی کچھ روز ہوئے، سندھ کے شہر خیرپور کے قریب ایک تیز رفتار وین نے قابو سے باہر ہوکر اسکول کو جاتے ہوئے کمسن بچوں کو روند ڈالا۔تیار ہوکر ،یونی فارم پہن کر جو بچّے گھر سے نکلے تھے، تھوڑی ہی دیر بعد خون میں نہائے ہوئے گھر واپس آگئے،پھر کبھی اسکول نہ جانے کے لئے۔ بچے اپنی جان سے گئے قصہ ختم ہوا ، دنیا اپنے کاموں میں مصروف رہی۔ کسی کو خبر بھی نہیں کہ ان دیہاتی گھرانوں میں کیسی قیامت گزر گئی۔

میں انگلستان میں آباد ہوں ۔ یہاں ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو اخباروں میں چیختی چنگھاڑتی سرخیاں لگتیں، ریڈیو اور خاص طور پر ٹیلی ویژن پر مباحثے شروع ہوجاتے اور سرکاری وزیر بظاہر آنسو بہاتے ہوئے اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہوتے، اداریے لکھے جاتے اور چھان بین کر کے اصل حقیقت جاننے کے لئے کمیٹیاں قائم کی جاتیں۔

 وہاں تو کسی کے کان پر کچھ بھی نہیں رینگا ، ایک خبر نامے میں یہ جان لیوا خبر ایک جملے میں نمٹادی گئی اور وہ جملہ بھی اتنی تیزی سے پڑھا گیا کہ بچوں کو روندنے والی وین بھی اتنی تیز رفتار نہ ہو گی۔

جس طرح مصور کے شاہکار کو ذرا پیچھے ہٹ کر دیکھا جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کو دیکھا جائے تو سچی بات یہ ہے کہ اس میں نئی بات کون سی تھی؟ یہ تو روز کا قصہ ہے۔ صبح ہوتے ہی ٹریفک کے حادثے شروع ہوجاتے ہیں اور جب تک زندگی کا کارو بار چلتا ہے، ہلاکتوں کا بازار بھی کھلا رہتا ہے۔ہم نے جب سے صحافت میں قدم رکھا ،خبر کی نت نئی تعریفیں سنتے آرہے ہیں۔

 نیوز کے بارے میں کہتے ہیں کہ نارتھ، ایسٹ، ویسٹ اور ساؤتھ کو ملائیں تو لفظ نیوز بنتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ لفظ ’نیوز‘ اردو میں نئے کی جمع ہے۔ یعنی واقعے میں نئی بات ہو تو خبر بنتی ہے۔روز روز کے واقعات خبر نہیں بناتے۔ آئے دن سڑکوں پر لوگوں کے جان سے جانے میں اب کوئی نئی بات نہیں رہی اس لئے لوگ اس طرف دھیان بھی نہیں دیتے۔نہ احتجاج ہوتا ہے، نہ تفتیش ہوتی ہے، نہ کمیٹیاں بیٹھتی ہیں اور نہ رپورٹیں لکھی جاتی ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب لوگ ہوائی جہاز میں بیٹھتے ہوئے ڈرتے تھے کہ یہ اڑتے اڑتے اگر نیچے آرہا تو کیا ہوگا۔ اس وقت لوگوں کو سمجھایا جاتا تھا کہ ہوائی حادثوں میں اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے ٹریفک کے حادثوں میں ہلا ک ہوتے ہیں۔سڑک پر تو اکّا دکّا ہی جان سے جاتے ہیں۔ کیا خوب کہ دو چار مر جائیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ 

انسانی جانوں کی اس ارزانی میں ہماری کھالیں موٹی ہوتی جارہی ہیں کہ ننھے بچوں کے یوں پلک جھپکتے روندے جانے کی خبر کا ہم پر اثر بند ہوگیا؟ زندگی کی بے قدری سی بے قدری ہے۔ موت آزادانہ محو رقص ہے اور سننے میں یہ آرہا ہے کہ یہ تو روز کا قصہ ہے۔سچ تو یہ ہے کہ سڑک کا حادثہ ہی نہیں، ہزار طرح کے جرائم اور واقعات میں لوگ مکھی مچھر کی طرح موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں اور خبر نامہ ان کے حق میں ایک تیزی سے پڑھے جانے والے جملے سے زیادہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔حسّاس آنکھیں میچ لیں، کانوں میں روئی ٹھونس لیں، کہیں منہ نیوڑھا کر پڑ رہیں، کیا کریں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

ہمارے ایک دوست تھے ، انہیں دل کا عارضہ تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں حکم دیا کہ اخبار پڑھنا چھوڑ دیں۔مگر اخبار تنہا قصور وار نہیں، اب تو آپ چاہیں کہ گھر میں کوئی ایسا گوشہ مل جائے جہاں خبریں نہ پہنچتی ہوں تو ناممکن ہے ۔ اگر یہ خبرہی دل کو دکھ دیتی ہے تو بقول شاعر ’کر دئیے اس نے گھر کے گھر خالی‘۔

امریکہ میں ایک نہتّے سیاہ فام کوگورے پولیس والے نے ہتھکڑی پہنانے کے لئے گھٹنے کے نیچے اتنا دبایا کہ وہ دکھیا یہ کہتے کہتے مرگیا کہ میرا دم گھُٹ رہا ہے۔اور اس جاں کنی کے عالم میں اس نے ماں کوپکارا۔اب حال یہ ہے کہ امریکی نظامِ انصاف کا تاریخی مقدمہ چل رہا ہے اور ساری دنیا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔

لندن میں ایک عورت شہر کےایک پارک سے پیدل گزر رہی تھی۔ ایک شخص نے اسے اغوا کرکے اور کہیں دور لے جاکر قتل کردیا۔ پولیس نے سارا علاقہ چھان مارا ،جنگلوں، درختوں اور جھاڑیوں میں ڈھونڈا اور جب تک خاتون کی لاش نہیں ملی او رمجر م پکڑا نہیں گیا، کوئی چین سے نہ بیٹھا۔یہ تو ہوئی ایک جرم کی بات ۔اس کے بعد پورے ملک میں یہ آواز اٹھی کہ عورت محفوظ کیوں نہیں ہے۔ احتجاج کی آواز بلند کرنے کے لئے خواتین باہر نکل آئیں۔

 حکومت ان سے کہتی رہی کہ زیادہ مجمع لگانے سے کورونا پھیلے گا۔ خواتین نے سنی ان سنی کردی۔ اس پر پولیس نے مقتولہ کا سوگ منانے والی عورتوں کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ وہ سارا منظر ٹیلی ویژن پر دیکھا گیا۔ اب پولیس والوں کی خیر نہیں۔

ہم جو یہ نعرہ لگا کر اٹھے ہیں کہ ایک فرد کی ہلاکت ،ایک معاشرے کی ہلاکت ہے ، ہمارا یہ پیمانہ فضاؤں میں کہیں تحلیل ہو چلا ہے۔ ایک ٹریفک ہی میں نہیں، ملک کے ہر کونے کھدرے میں لوگ یوں ہلاک ہو رہے ہیں کہ ہم نے شمار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

 انسانی جان کتنی گراں ہوتی ہے، جب تک خود ہماری جان پر نہ بنے، ہم پر ان واقعات کا اثر نہیں ہوتا۔ برطانیہ میں کورونا سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والے ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کے مرنے کا منظر ٹی وی پر دکھایا جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔مطلب یہ کہ یہ بات پیار محبت سے اور آہستگی سے نہیں سمجھائی جا سکتی۔تو پھر کیا کریں۔چپ ہو رہیں؟ یا کچھ کریں؟۔

بہتر یہی ہے کہ کچھ کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔