بلاگ
Time 06 اپریل ، 2021

کچھ آئین، نصاب اور تعلیم کے بارے میں

فائل فوٹو

محترم وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ وہ ہر صبح اپنے دفتر نہیں جاتے، بلکہ جہاد پر نکلتے ہیں۔ خوش قسمت ہیں کہ ہر روز نیکی کے بوریے سمیٹتے ہیں۔ اس ملک میں لاکھوں نصیب جلے ہر صبح روٹی کی تلاش میں نکلتے ہیں، شام ڈھلے افسردہ چہروں اور پٹپٹاتی آنکھوں کے ساتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، خدا معلوم اپنے بچوں کو کیسے تسلی دیتے ہوں گے۔ 

درویش کی افتاد ان دو انتہائوں کے بیچ کہیں واقع ہوئی ہے، جسے محترمہ حمیدہ شاہین نے ایک مصرعے میں سمیٹ لیا تھا ’ہماری خاک پر الفاظ ہی واجب ہوئے ہیں‘… سویرا ہوتا ہے تو کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں۔ اپنے آن لائن کام میں ہر روز اوسطاً 40 سے 50 تحریریں پڑھنا ہوتی ہیں۔ 

کچھ مشاہدات عرض کرتا ہوں، انہیں خود ستائی پر محمول نہیں کیجئے گا۔ ایسی گستاخی کی مجال نہیں، جس ملک میں اسد محمد خان اور محمد سلیم الرحمن نثر لکھ رہے ہیں، ظفر اقبال اور افتخار عارف غزل کہہ رہے ہیں، وسعت اللہ خان اور خورشید ندیم اخباری کالم کو نئے زاویے بخش رہے ہیں، وہاں ہم ایسے ہیچمدانوں کو اپنی حدود پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ 

کوئی شبھ دن ایسا ہوتا ہو گا کہ مستند اساتذہ کو چھوڑ کر نوجوان لکھنے والوں کی چار یا پانچ ڈھنگ کی تحریریں پڑھنا نصیب ہو۔ املا اور گرامر کی اغلاط کو تو ایک طرف رکھیے۔ ہماری نوجوان نسل کی فکری سمت کی نشاندہی کرنے والے نکات پر توجہ فرمائیں۔ پامال بیانات کی بھرمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے انفرادی غور و فکر کی بجائے رٹی رٹائی تلقین کو نذر قرطاس کر رہے ہیں۔ 

محاوروں کی بہتات بتاتی ہے کہ گزشتہ نسلوں کے اقداری سانچوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ قابل تصدیق حقائق یا تو سرے سے غائب ہیں یا تاریخی، سیاسی، معاشی اور جغرافیائی کم نظری کی چغلی کھاتے ہیں۔ منطقی مغالطوں کا ایک طومار ہے اور مربوط بیان ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ جہاں دلیل چاہیے وہاں شعر ٹھونس رکھا ہے اور شعر فہمی کی حد یہ ہے کہ کسی پدر سوختہ چوہدری فتح دین کی کج مج بیانی علامہ اقبال سے منسوب کر دی جاتی ہے۔ اور آخری تسمہ یہ کہ موضوع سے متعلقہ تفصیل کا تکلیف دہ فقدان۔ 

اگر پڑھنے والے کے تعصبات کی تائید کرنے سے سستی پذیرائی ملتی ہو تو تفصیلات میں موجود غیر مقبول حقائق سے سر پھوڑنے کی زحمت کیوں کی جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 56 فیصد آبادی کی عمر 25 برس سے کم ہے اور خواندگی کی سرکاری شرح 59 فیصد ہے۔

کسی معاشرے میں رائے عامہ کی تشکیل کے تین بنیادی ماخذ ہوتے ہیں، نصاب تعلیم، ذرائع ابلاغ اور سیاسی مکالمہ۔ 1971 ء میں ملک دو لخت ہونے کے بعد سرکاری طور پر ایک بیانیہ اختیار کیا گیا جس پر جنرل ضیاالحق کے عہد میں ایسا گہرا رنگ چڑھایا گیا کہ اس کی مزاحمت قریب قریب ناممکن ہو گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل اسی اساطیری تصور حیات میں پلی بڑھی اور اب فیصلہ ساز مناصب تک پہنچ چکی ہے۔ 

نظریاتی ریاست شفاف نہیں ہوتی بلکہ اخفا، جھوٹ اور دہشت کو پالیسی کے طور پر اپناتی ہے۔ اس کے نتیجے میں شہری ناگزیر طور پر ذہنی افتراق کا شکار ہوتے ہیں۔ نجی مشاہدے اور اجتماعی بیان میں دوئی پیدا ہوتی ہے۔ نصاب کی کتاب سے طالب علم اور استاد دونوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ علم کا چشمہ ایک اٹھلاتی ہوئی تخلیقی سرگرمی کی بجائے ایک کائی زدہ جوہڑ میں بدل جاتا ہے۔ یہاں چند مزید حقائق دیکھ لیں۔ اس برس پاکستان کی آبادی کا تخمینہ 22 کروڑ 30 لاکھ ہے اور سرکاری طور پر 3.72 فیصد شہری (نوے لاکھ) غیر مسلم عقائد رکھتے ہیں۔

براعظم یورپ میں کل 48 ممالک ہیں جن میں 30 ممالک ایسے ہیں جن کی کل آبادی 90 لاکھ سے کم ہے۔ گویا متجانس آبادی کی بڑی شرح کے باوجود مذہبی اقلیتوں کو نظر انداز کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔ یوں بھی اقلیت اعداد و شمار کا کھیل نہیں، اقلیتی اور اکثریتی گروہوں میں تعلق سے ریاست کا تشخص، سماجی ہم آہنگی اور انسانی ترقی کا معیار طے پاتا ہے۔ ہمارے دستور میں بنیادی حقوق کے باب میں متعدد اہم ضمانتیں دی گئی ہیں۔ شق 20 ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ 

شق 25 میں شہری کو ہر نوع کے امتیازی سلوک سے تحفظ دیا گیا ہے اور شق 22 (الف) میں کہا گیا ہے کہ ’کسی شہری کو تعلیمی اداروں میں ایسی مذہبی تعلیمات نہیں دی جائیں گی جو اس کے اپنے عقائد سے متصادم ہوں‘۔ حکومت نے یکساں تعلیمی نصاب مرتب کا ذمہ اٹھایا تو کچھ شہریوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ اسلامیات کے مضمون سے قطع نظر دیگر لازمی مضامیں مثلاً اردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور سائنس کے مضامین میں مذہبی مواد کی شمولیت دستور کی شق 22 (الف) کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 8 فروری کو اس استدعا کی سماعت کرتے ہوئے واضح حکم دیا کہ شق 22 (الف) کی مکمل پابندی کی جائے اور آئندہ سماعت پر تحریری رپورٹ پیش کی جائے۔ 

15 فروری کو تحریری رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ آئندہ سماعت پر سیکرٹری تعلیم خود حاضر ہوں۔ 31مارچ کو عدالت عظمیٰ نے شدید برہمی کا اظہار کیا کیونکہ محکمہ تعلیم نے موقف اختیار کیا کہ اساتذہ کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ غیر مسلم طلبا کو لازمی مضامیں میں مذہبی اسباق پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائے نیز امتحانات میں ایسے موضوعات پر سوالات کا متبادل سوال دیا جائے۔

عدالت کے استفسار پر کہ اس ہدایت کی عملی صورت کیا ہو گی، بتایا گیا کہ ایسے موقع پر غیر مسلم طلبا کو کمرہ جماعت سے چلے جانے کو کہا جائے گا۔ عزیزو! غیر مسلم ہونے کی بنا پر کمرہ جماعت سے باہر کھڑا طالب علم اگر امتیازی سلوک کا شکار نہیں تو پھر میں اور آپ جھوٹے اور ہمارا وہ بھائی سچا ہے جو لکھتا ہے کہ ’ایک اسلامی ملک میں اگر بچوں کو اسلام نہیں پڑھایا جائے گا تو انہیں کیا کوئی دوسرا مذہب پڑھایا جائے؟‘۔ یہ ہم کب ہیں، ہماری کم نگاہی بولتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔