08 اپریل ، 2021
وزیراعظم عمران خان نے فحاشی کے خلاف اور پردہ کی حوصلہ افزائی کرنے کی کیا بات کی کہ دیسی لبرلز کا ایک طبقہ بھڑک اُٹھا اور وزیراعظم کے بیان پر اپنی مرضی کی تاویلیں دے کر اُن پر حملہ آور ہو گیا۔
تنقید کرنے والوں نے وزیراعظم کی بات کو اپنا مطلب پہناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیان کا مقصد زیادتی کی شکار خواتین اور بچوں کو ہی قصور وار ٹھہرانا ہے۔ میڈیا میں موجود ایک طبقے کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان بھی بھڑکنے والوں میں شامل تھا۔
اگر سچ پوچھیں تو اصل تکلیف اس بات کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے فحاشی کے خاتمے اور پردے کو فروغ دینے کی کیوں بات کی؟ اگر میری بات غلط ہے تو وزیراعظم کو نشانہ بنانے والے بشمول ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان صرف اس سوال کا جواب دے دیں کہ کیا آپ اس ملک سے فحاشی کے خاتمے اور پردے کے فروغ کے حق میں ہیں؟ اس کے جواب سے ہیومن رائٹس کمیشن اور بھڑکے ہوئے دیسی لبرلز کی اصل نیت سامنے آ جائے گی۔
جو لوگ بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اُنہیں نشانِ عبرت بنانا چاہئے اور سر عام پھانسی دی جانی چاہئے۔ کیا انسانی حقوق کے علمبردار اس بات پر راضی ہوں گے؟ اگر سرعام پھانسی دینے پر اعتراض ہو تو کیا ایسے درندوں کے لئے موت کی سزا پر ہی ہمارا ہیومن رائٹس کمیشن تیار ہو گا؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اگر فحاشی کے خاتمہ کی بات کرتا ہے، پردے کا حکم دیتا ہے، سنگین جرائم پر مجرموں کو نشانِ عبرت بنانے کی بات کرتا ہے تو نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن اور سیکولرز و لبرلز میں موجود ایک طبقہ یہ سب ماننے کے لئے تیار نہیں۔
کوئی ذی ہوش شخص کیسے زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں یا خواتین کو ہی اس جرم کا ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے؟ وزیراعظم نے جو بات کی وہ تو یہ تھی کہ بچوں اور عورتوں کے خلاف زیادتی کے بڑھتے جرائم کی ایک وجہ فحاشی ہے۔ اس کا یہ مطلب کیسے نکال لیا گیا کہ زیادتی کے شکار بچوں اور عورتوں کو ہی وزیراعظم نے اس جرم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا؟ فحاشی جب فلموں، ٹی وی چینلز اور موبائل ایپس کے ذریعے پھیلتی ہے تو اس سے کئی دیکھنے والوں کے ذہن بُرائی کی طرف راغب ہوتے ہیں جو ایک حقیقت ہے۔
ریپ کے بڑھتے ہوئے جرائم کے اور بھی عوامل ہیں لیکن کیا یہ بات درست نہیں کہ گندگی دیکھ کر چند لوگوں میں درندگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یوں وہ کمسن بچوں اور عورتوں کو زیادتی کا نشان بناتے ہیں؟ وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ ہمیں اپنی فلموں، ڈراموں اور موبائل ایپس کو گندگی سے پاک کرنا چاہئے اور دیکھنے والوں کو ایسی تفریح دیں جو تعمیری ہو۔
ترک ڈرامہ ارتغرل کی مثال بھی خان صاحب نے دی اور یہ بھی بتایا کہ پہلے جب وہ پوچھتے تھے کہ اچھی اور تعمیری فلمیں اور ڈرامے کیوں نہیں بنتے تو جواب دیا جاتا تھا کہ لوگ یہی (یعنی فحاشی) دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ترک ڈرامہ پاکستان میں دکھایا گیا تو اُس نے اِس جھوٹ کو بےنقاب کیا اور اس ڈرامہ نے پاکستان میں تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
وزیراعظم نے پردے کی بھی بات کی جس کا اسلام حکم دیتا ہے لیکن اس سب کو جان بوجھ کر اس لئے اسکینڈلائز کیا گیا تاکہ فحاشی و عریانی پھیلانے والوں کے دھندے کو تحفظ دیا جا سکے اور کوئی پردے کی بات نہ کرے۔ یہ ساری کارروائی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ عام لوگوں کو کنفیوژ کیا جا سکے اور اسلام کی بات کرنے والوں کو دیوار سے ایسے لگا دیا جائے کہ کوئی اسلام اور اسلامی شعائر کی بات ہی نہ کرے۔
ہیومن رائٹس والوں نے کبھی اس بارے میں بات کیوں نہیں کہ خواتین کو پیسہ کمانے کے لئے کس طرح کارپوریٹ سیکٹر استعمال کرتا ہے؟ اُن کو سیکس Objectبنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے، اُن کی توہین کیوں کی جاتی ہے؟ ہمارے نام نہاد انسانی حقوق کے سیانے اور لبرلز کا وہ مخصوص طبقہ جسے اُس کی سوچ کی وجہ سے دیسی لبرل کا لیبل دیا جاتا ہے، دراصل نہ آئین کو مانتا ہے نہ قانون کو، وہ اسلامی احکامات اور اسلامی شعائر کے فروغ کی بھی بات نہیں کرتا اور پاکستان کو بھارتی اور مغربی کلچر کے زیر اثر لانا چاہتا ہے۔
اگر یہ لوگ آئین کو ہی ماننے والے ہوتے تو فحاشی کی روک تھام، پردے کے فروغ اور شرم و حیا کو معاشرہ میں رواج دینے کی بات کرتے لیکن ایسی بات تو نہ ان کے منہ سے کبھی سنی نہ ہی ان کے بیانات میں پڑھنے کو ملی۔ خیر ان سے تو ایسی بات کی توقع ہی نہیں لیکن افسوس مجھے اُس اکثریت کی خاموشی سے ہے جو فحاشی کو بُرا جانتی ہے، پردے کے حق میں ہے، شرم و حیا کو پسند کرتی ہے، اسلام سے محبت کرتی ہے لیکن بولتی نہیں۔ یہاں تک کے سیاستدانوں کی اکثریت بھی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں اور میڈیا کے ڈر سے کچھ نہیں بولتی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔