10 اپریل ، 2021
گگن شاہد اور امر شاہد دو بھائیوں پر مشتمل اک لشکر ہے جو چن چن کر خوبصورت کتابیں شائع کرتا ہے۔اک ایسا معاشرہ جس میں کتابوں کی دکانیں اداس اور کبابوں کی دکانیں قہقہے لگا رہی ہوں، وہاں کتابوں سے عشق کیلئے ایسے ہی عاشقوں کی ضرورت ہے ورنہ شاید ’’چیک بک‘‘ کے علاوہ اور کوئی ’’بک‘‘ ہی دکھائی نہ دے ۔دونوں بھائیوں کا تازہ ترین کارنامہ رحمت اللہ ترکمن کی تحقیقی تصنیف ’’ارطغرل غازی ‘‘ہے۔
اک ایسا حقیقی بھولا بسرا تاریخی کردار جسے اک ڈرامہ نے نئی زندگی دی ہے۔ سلطنت عثمانیہ سے میرا رومانس بہت پرانا ہے۔ 600سال تین براعظموں پر حکومت کرنے والے اس خاندان کی باقاعدہ بنیاد عثمان غازی نے رکھی تھی جس کیلئے زمین ہموار کرنے والا اس کا دلیر، دانا والد ارطغرل غازی (1188-1281) تھا۔
یوں تو ساری کتاب ہی بے حد معلوماتی اور دلچسپ ہے لیکن جس بات نے مجھے ہپناٹائز سا کر دیا وہ ارطغرل غازی کی وصیت ہے، جسے پڑھنے کے بعد میں اب تک سوچ رہا ہوں کہ صدیوں پہلے اک جنگجو قبائلی سردار کے پاس جتنا وژن اور جتنی وزڈم موجود تھی،ہمارے حکمرانوں کے قریب سے بھی نہیں گزری ۔
وہ صدیوں آگے دیکھ رہا تھا، یہ بیچارے اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے قابل بھی نہیں ۔جس کے پاؤں زمین پر سر آسمانوں پر تھا ان کےسر پاتال میں اور پاؤں بمشکل زمین پر ہوتے ہیں ۔آج ارطغرل غازی کی یہی صدیوں پرانی وصیت اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ جان سکیں کہ حقیقی قیادت اور سطحی قسم کی موقع پرستانہ سیاست میں فرق کیا ہے ۔
ارطغرل غازی اپنے فرزند عثمان کو ہرلحاظ سے پختہ اور کامل بنانا چاہتا تھا اس لئے اس کی جسمانی تربیت کیلئے تورغوت آلپ، عبدالرحمن غازی، آقچہ قوجہ اور قونور آلپ جیسے عظیم جنگجوؤں کو ذمہ داریاں سونپیں اور روحانی تربیت کے لئے شیخ ادیبالی سے درخواست کی ۔وفات سے قبل عثمان کو وصیت کی جسے عثمانی مورخ ابن کمال نے سلاطین نامہ میں درج کیا ہے ۔
بظاہر یہ الفاظ ارطغرل غازی نے عثمان کیلئے کہے لیکن یہ وصیت ان کی نسل سے ہونے والے تمام سلاطین پر لاگو ہوتی تھی اور تمام عثمانی سلاطین نے اسے مشعل راہ بنایا جو اکثر تواریخ میں مذکور ہے۔ارطغرل کے الفاظ یہ ہیں ۔’’دیکھ بیٹے ! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی بے خبر رہتا ہے۔عثمان ! اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو۔ہمیشہ یاد رکھنا تم کہاں سے آئے تھے اور تم نے جانا کہاں ہے۔بیٹا ! میری دل آزاری کر لینا لیکن ادیبالی کو ناراض نہ کرنا ۔وہ ہمارے خاندان کے چراغ ہیں۔ ان کا ترازو کبھی غلط نہیں ہوتا ۔میرے مخالف ہو جانا لیکن ان کے خلاف نہ ہونا۔میری نافرمانی کرو گے تو میں آزردہ ورنجیدہ ہوں گا لیکن اگر ان کی د ل آزاری ہوئی تو میری آنکھیں تم سے رخ موڑ لیں گی۔میرے یہ الفاظ ادیبالی کیلئے نہیں تمہاری بہتری کیلئے ہیں۔
میری ان باتوں کو وصیت سمجھو۔بیٹا! ہمیں رکنے اور آرام کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ہمیں بہت کم مدت دی گئی ہے۔تمام کاموں سے پہلے دین کے کام پر توجہ کرنا کیونکہ فرائض کا اہتمام دین و سلطنت کے استحکام کا باعث بنتا ہے۔دین کے کاموں کو لاپروا، بدعقیدہ اور راہ راست سے بھٹک جانے والے، گناہ کبیرہ کے مرتکب، حلال و حرام کی تفریق نہ کرنے والے اور ناتجربہ کار افراد کو نہ سونپ دینا۔امور سلطنت کیلئے بھی ایسے لوگوں کے انتخاب سے گریز کرنا کیونکہ خالق کی نافرمانی کرنے والا مخلوق سے بھی کبھی وفاداری نہیں کر سکتا۔ظلم اور بدعت کے قریب نہ جانا اور ایسا کرنے والوں کو حکومت سے دور رکھنا۔
زیادہ عرصہ تک مہمات نہ ہوں تو سپاہیوں کی شجاعت اور قائدین کی فہم وذکا اور معلومات میں کمی اور نقصان ہو گا۔حربی امور کے ماہرین ختم ہوتے جائیں گے۔بیت المال کی حفاظت کرنا، قناعت پسندی اختیار کرنا، مال وزر کو غیر ضروری اشیاء کیلئے خرچ نہ کرنا۔اسراف سے خود کو دور رکھو۔اپنی عسکری قوت اور مال و دولت پہ غرور نہ کرنا کیونکہ وہ اﷲ کی راہ میں عوام الناس کی ضروریات کی فراہمی اور روئے زمین پر عدل پھیلانے کا ذریعہ ہے۔
رعایا میں سے کسی کے مال پر تجاوز نہ کرنا، نیکی اورسخاوت کا ہاتھ بڑھانا۔سپاہ اور دفاعی افواج پر توجہ دینا، علما،صوفیا، صنعت کاران اور اہل قلم حضرات سلطنت کی قوت ہیں۔کسی کے صاحب کمال ہونے کا سنو تو اس کی قربت اختیار کرو۔حقوق اﷲ اور حقوق العباد پر توجہ دینا اور اپنے سے بعد آنے والوں کو بھی یہی نصیحت کرنا۔عدل وانصاف قائم، ظلم کا خاتمہ کرنا اور ہر مشکل میں ﷲ پر یقین کامل رکھنا۔لوگوں کو دشمن اور ظالم کے شر سے محفوظ رکھنا۔کسی شخص کو ناحق سزا نہ دینا۔ لوگوں کو انعام وکرام سے نوازتے رہنا اور سب کی رضا و محبت حاصل کرنا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔