جہانگیر ترین کی کہانی

فوٹو فائل

تحریک انصاف کو حکومت میں آئے کچھ عرصہ ہوا تھا، انہی دنوں ایک صوبائی وزیر کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو ان کے آبائی علاقے میں ہو رہی تھی۔ وسیع پنڈال میں وفاقی و صوبائی وزراء، ممبران اسمبلی اور دوسرے مہمان سیکڑوں کی تعداد میں موجود تھے اور برأت بھی پہنچ چکی تھی کہ اچانک خبر آئی جہانگیر خان ترین کا پرائیویٹ جہاز قریبی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والا ہے۔ 

تقریب کے میزبان صوبائی وزیر فوراً انہیں ریسیو کرنے ایئر پورٹ روانہ ہوگئے اور جب وہ انہیں لے کر واپس لوٹے تو ترین سب کی نگاہوں کا مرکز تھے خصوصاً سرکاری و سیاسی شخصیات ان کے قریب آنے کو بے قرار تھیں۔ فیصل آباد ڈویژن سے آئے دو صوبائی وزیر اور ایک خاتون مشیر ان کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ 

سبھی اہم وزراء و اعلیٰ شخصیات کی کوشش تھی جہانگیر ترین کیلئے مختص خصوصی ٹیبل پر جگہ مل جائے ‘ ترین صاحب بھی اس خصوصی پروٹوکول سے محظوظ ہو رہے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد جہانگیر ترین کی اہمیت اور پذیرائی صرف اس ایک تقریب تک محدود نہیں تھی وہ جہاں بھی جاتے ان کا بے مثال استقبال ہوتا، سبھی ان کو عمران خان کا قریب ترین دوست اور کنگ میکر سمجھتے تھے۔

 الیکشن سے قبل جنوبی پنجاب محاذ کے ذریعے جہانگیر ترین کی پوزیشن اور اہمیت ساؤتھ پنجاب میں کم کرنے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ 2018کے الیکشن میں جنرل اور خصوصی نشستوں کیلئے جہانگیر ترین اور علیم خان کی سفارشات کو حتمی حیثیت حاصل تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب صوبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ان کی مرضی کے بغیر لگ گیا۔

 وزیر اعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب سے ہی تعلق رکھنے والے عثمان بزدار کو جہانگیر ترین سے اُس وقت متعارف کروایا جب وہ انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے ۔ دل شکستہ اور حیرت زدہ جہانگیر ترین نے ابتدا میں تو لوگوں کو بتا یا کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے میں ان کی مرضی شامل تھی تاہم بعد میں انہوں نے اعتراف کیا کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنوانے میں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔

 پنجاب کی کابینہ میں جہانگیر ترین کے نزدیکی چند ممبران صوبائی اسمبلی کو اکاموڈیٹ کیا گیا تاہم اہم وزارتوں سے انہیں دور رکھا گیا۔ جہانگیر ترین جو انتخابات کے دوران لاہور سے پارٹی کے اہم رہنما کے ساتھ مل کر اپنے حریف شاہ محمود قریشی کو صوبے کی سیاست اور وزارت اعلیٰ سے بے دخل کر چکے تھے، بزدار سرکار کے آگے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگے اور یوں ترین کیمپ اور بزدار کیمپ میں مخاصمت بڑھتی چلی گئی جس کا نقصان عمران خان اور ان کی پارٹی کو ہوا۔ 

ایک طرف پنجاب میں اقتدار اور پاور کیلئے چپقلش جاری تھی دوسری طرف مرکز میں بھی بااثر شخصیات جہانگیر ترین کی طاقت اور اثر رسوخ کو ختم کرنے کے درپے تھیں جس کے لیے منظم طریقے سے کام کیا گیا، سرکاری وسائل کو ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے پر لگا دیا گیا اور پھر اپوزیشن کے احتساب کو بیلنس کرنے کیلئے ان کے خلاف بھی مقدمات بنا دیئے گئے۔

 وسیع و عریض زرعی اراضی، جدید ترین ڈیری فارمنگ یونٹس، متعدد شوگر ملوں اور پاور جنریشن پلانٹس پر مشتمل ترین فیملی ملک کے چند بڑے صنعتی گروپس میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے کاروباری لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جہانگیر ترین میں بھی کمزوریاں ہوں یا معاملات پوری طرح شفاف نہ ہوں جن کی تحقیقات کیلئے سرکاری ادارے اور عدالتیں موجود ہیں۔ ملکی سیاست میں جہانگیر خان ترین نے تحمل، بردباری، رواداری اور افہام و تفہیم کی سیاست کو فروغ دیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج گرتی ہوئی صحت، کمزور ہوتی سیاسی قوت اور اپنوں کی بے اعتنائی کے باوجود ان کے دوست اور رفیق ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔