بھولا ڈنگر اور ماہِ رمضان!

فوٹوفائل

اگر مجھےا ﷲ تعالیٰ کا اتنا قرب حاصل ہوتا کہ میں اﷲ سے کوئی درخواست کرتا اور وہ اسے قبولیت بخش دیتا تو میں اس سے صرف ایک درخواست کرتا کہ باری تعالیٰ میرے دوست بھولے ڈنگر کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا نہ فرما۔

 اس کا حل تو باری تعالیٰ آپ ہی جانتے ہیں مگر میں چند تجاویز محض اپنی تسلی کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً رمضان سے ایک ماہ قبل اسے کسی ایسی بیماری میں مبتلا فرما کہ وہ رمضان کے آخری روزے تک چارپائی سے اٹھ کر صرف باتھ روم تک جا سکے، بلکہ اپنے کمالِ قدرت سے کچھ ایسا اہتمام کر ےکہ ہر پانچ منٹ بعد وہ باتھ روم جائے۔

میں اپنے شفیق و مہربان رب سے معافی کا طلبگار ہوں کہ اس کے ایک بندے کے لئے بددعا مانگ رہا ہوں لیکن ایک سردار جی نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو بہت مغموم ہوئے اورا ﷲ سے مخاطب ہو کر شکایت کی ’’ربا، اے بندہ بنایا ای؟‘‘ (یا رب، تم نے یہ انسان بنایا ہے) بہرحال بات یہ ہے کہ بھولے ڈنگر نے عام دنوں کے علاوہ میرے لئے رمضان کا مبارک مہینہ بھی اپنی بعض حرکتوں سے تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ 

موصوف رات کو ڈیڑھ بجے فون کرتے ہیں، میں اس وقت سویا ہوتا ہوں، چنانچہ فون نہیں اٹھاتا لیکن جب مسلسل گھنٹی کی آواز سے سارا گھر جاگ اٹھتا ہے تو فون اٹھاتا ہوں، دوسری طرف بھولا ڈنگر ہوتا ہے، ’’میں نے سوچا تمہارا روزہ نہ رہ جائے، اس لئے سحری کے لئے جگانے کی خاطر فون کر رہا ہوں‘‘۔ 

میں نے اس کے جواب میں چند ایک مخصوص الفاظِ خبیثہ و ذلیلہ الگ سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں، ان کے استعمال کے بعد میں کہتا ہوں کہ میں نے آٹھ پہرا روزہ نہیں رکھنا جو رات کو ڈیڑھ بجے سحری کھانے بیٹھ جاؤں، میرے الفاظِ خبیثہ و ذلیلہ کا برا منائے بغیر وہ یہ کہہ کر فون بند کر دیتا ہے کہ ’’تم صحیح کہتے ہو مگر ابھی میں نے اپنے دس بارہ دوسرے گنہگار دوستوں کو بھی فون کرنا ہے جو روزے پر نیند کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔

بھولے ڈنگر کے ’’فرائض‘‘ کی فہرست ابھی کافی طویل ہے جو اس نے ماہِ رمضان میں ثواب کے لئے ازخود وضع کر رکھے ہیں۔ دوپہر کو مجھ سے پوچھتا ہے ’’تم ظہر کی نماز میں نظر نہیں آئے؟‘‘ میں دانت پیستے ہوئے کہتا ہوں ’’میں نے نماز مولوی رمضان صاحب کی مسجد میں ادا کی تھی‘‘ وہ کہتا ہے ’’اچھا فلاں مسلک کی مسجد میں، اب تم پر اس نماز کی قضا لازم ہو گئی ہے‘‘۔ اگر میں کسی اور مولوی صاحب کی مسجد کا نام لیتا ہوں تو کہتا ہے ’’اچھا فلاں مسلک کی مسجد میں‘‘ نمازِ قضا ادا کرنے کی وہ ایک بار پھر تلقین کرتا ہے۔ 

میں روزے کے دوران اس سے ملنے کی کوشش تو کجا اس کی اس خواہش کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اسے دیکھ کر سڑک پر سے کاغذ اور خالی ڈبے چننے والے بچے کے پاس چلا جاتا ہوں اور کہتا ہوں بیٹے تم اتنی کم عمر میں اتنی محنت کرتے ہو۔ تمہارے گھر میں بڑا کوئی نہیں ہے اس کا جواب اس کی آنکھوں سے بہنے والے چند قطرے ہوتے ہیں۔

 اسی اثنا میں بھولا ڈنگر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا میرے پاس آتا ہے اور اپنا منہ میرے منہ کے بالکل قریب لاکر اندر کی ساری ہوا میرے منہ پر پھینکتا ہے جس سے مجھے قے آنے لگتی ہے اور میں اس کے لئے وہی مخصوص الفاظِ خبیثہ و ذلیلہ استعمال کرتا ہوں، جس پر وہ شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا مجھ پر برس پڑتا ہے۔ ’’نہیں رکھا نہ روزہ تم نے، روزہ رکھنے والے کے منہ کی خوشبو میرے منہ سے آنے والی خوشبو ایسی ہوتی ہے، تم ایسے بے دین ایسی نہیں۔ سچ سچ بتاؤکیا کھا کر آرہے ہو؟‘‘

(جاری ہے )


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔