پاکستان
Time 23 اپریل ، 2021

پمز اسپتال میں کورونا مریضوں کو آکسیجن میں کمی کا مسئلہ کیوں ہوا؟

18 اپریل کو شام کے وقت جب اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پمز میں سب سسٹم معمول کے مطابق چل رہے تھے کہ اچانک کورونا مریضوں کے لیے مختص وینٹی لیٹرز کے سسٹم پر الرٹ کا سائرن بجنا شروع ہوا جس کے بعد اسپتال کے کورونا آئی سی یو میں ایک دم افراتفری مچ گئی کیونکہ یہاں پر موجود ہر مریض کے وینٹی لیٹرز کا آکسیجن پریشر کم ہو رہا تھا اور الرٹ کا الارم مسلسل بج رہا تھا۔

جس وقت پمز اسپتال میں آکسیجن لیول کم ہونے کا الرٹ بج رہا تھا اس وقت اسپتال میں موجود کورونا کے آئی سی یو میں 5 مریض وینٹی لیٹر پر تھے جبکہ کورونا کے لیے مختص 183 بیڈز میں سے 147 پر مریض زیر علاج اور ایمرجنسی میں بھی 30 کورونا مریض موجود تھے جن میں سے اکثریت ہائی فلو آکسیجن پر تھی، مطلب معمول کا سانس بحال رکھنے کے لیے انہیں ایک عام مریض کی نسبت زیادہ آکسیجن کی ضرورت تھی کیونکہ کورونا کے باعث ان کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔

اسی اصطلاح پر مکمل صورتحال جاننے کے لیے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پمز مہناج السراج سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ پمز میں کورونا کے مریضوں کا دباؤ بڑھنے اور مریضوں کو ہائی آکسیجن فلو کی مسلسل فراہمی کے باعث آئی سی یو کے وینٹی لیٹرز میں آکسیجن کی سپلائی کا پریشر 100 سے کم ہو کر 70 فیصد تک آ گیا، آکسیجن پریشر کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اسپتال میں غیرضروری آکسیجن سپلائی کو فوری طور پر بند کر دیا گیا تاکہ کورونا مریضوں کے لیے آکسیجن کا ہائی فلو برقرار رکھا جا سکے، دوسری صورت میں انسانی زندگیوں کو خطرہ تھا۔

آکسیجن پریشر کی کمی کیلئے فوری اقدامات

اسپتال کے آکسیجن ٹینک میں آکسیجن بھی موجود تھی تو پھر پریشر کا کیا مسئلہ بنا؟

انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ پمز اسپتال میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں کیونکہ آکسیجن ٹینک میں 10 ہزار کیوبک میٹر آکسیجن گیس موجود ہونے کے ساتھ ہر 15 گھنٹے بعد اس کی فلنگ ہوتی ہے، مسئلہ کورونا کے مریضوں کے لیے آکسیجن پریشر برقرار رکھنا ہے، مریض زیادہ ہیں اور سپلائی لائنز بھی زیادہ استعمال ہو رہی ہیں جس کے باعث پہلے سے موجود پریشر کم پڑنے لگا۔

فوٹو: جیو نیوز

اسپتال انتظامیہ نے اجلاس بھی بلایا لیکن مرکزی سپلائی یونٹ سے مزید پریشر بڑھانے پر انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ آکسیجن پریشر زیادہ بڑھایا تو اسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کے لیے نصب آکسیجن پائپ پھٹ سکتے ہیں کیونکہ یہ 35 سال پرانے ہیں، عام حالات میں آکسیجن پریشر3 بارز ہوتا ہے، اس وقت پہلے ساڑھے 5 بارز پھر اسے 7 بارز کر دیا گیا، مزید پریشر بڑھانا خطرناک ہو سکتا تھا، انتظامیہ پہلے ہی 7 بار آکسیجن کا پریشر رسک لے کر بڑھا چکی تھی۔

پمز اسپتال انتظامیہ نے آخر میں حل یہ نکالا کہ فی الحال تمام شیڈول آپریشن روک دیے جائیں اور آئی سی یو میں جہاں مریض نہیں وہاں پر بھی آکسیجن سپلائی بند کر دی جائے تاکہ کورونا کے مریضوں کے لیے آکسیجن پریشر بہتر ہو سکے۔

دوسرے دن مزید اقدامات اٹھاتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ وینٹی لیٹرز  پر موجود کورونا مریضوں کو میڈیکل یا سرجیکل آئی سی یو میں منتقل کیا جائے اور  اسپتال میں لیور ٹرانسپلانٹ سمیت دیگر بند یونٹس کے آئی سی یو کھول دیے جائیں۔

یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کورونا کی تیسری لہر کی شدت میں شیڈول آپریشن نہیں کیے جائیں گے ماسوائے ایمرجنسی آپریشن کہ تاکہ کورونا کے مریضوں کو ہائی فلو آکسیجن ملتی رہے۔

انتظامیہ کا مؤقف رہا کہ ایسے حالات میں جب کورونا شدید ہے اور آکسیجن چاہیے، نئے پائپ ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے۔

پمز اسپتال پر اتنا دباؤ کیوں پڑا؟

اس وقت اسلام آباد میں کورونا مریضوں کے علاج کے لیے 16 اسپتال مختص ہیں تو پھر پمز اسپتال پر اتنا دباؤ کیوں پڑا؟

وزرات صحت کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں فیڈرل گورنمنٹ اسپتال اور سوشل سکیورٹی اسپتال میں ہائی فلو آکسیجن بیڈز کے مناسب انتظامات نہیں ہیں اور ناہی کوئی وینٹی لیٹر اس وقت کورونا مریضوں کے لیے ان اسپتالوں میں موجود ہے، فیڈرل گورنمنٹ اسپتال میں کورونا مریضوں کے لیے مختص 100 بیڈز میں سے 9 پر مریض داخل ہیں، سوشل سکیورٹی اسپتال میں کورونا کے لیے 12 بیڈز مختص مگر کوئی مریض داخل نہیں ہے۔

فوٹو: فائل

ذرائع کے مطابق ہائی فلو آکسیجن والے مریضوں کو فیڈرل اسپتال اور سوشل سکیورٹی میں نہیں رکھا جاتا بلکہ ایسے مریضوں کو پمز اور دیگر اسپتالوں میں ریفر کیا جاتا ہے جس کے باعث ان اسپتالوں پر لوڈ بڑھ گیا ہے، اسی طرح سی ڈی اے اسپتال میں بھی کوئی وینٹی لیٹر موجود نہیں۔

حکام کے مطابق جس اسپتال میں وینٹی لیٹرز موجود نہیں یا ہائی فلو آکسیجن کا مناسب انتظامات نہیں وہاں کورونا کے ہائی فلو آکسیجن کی ضرورت رکھنے والے مریضوں کو رکھنے سے اس لیے گریز کیا جاتا ہے کہ ایسے مریض کی حالت کبھی بھی تشویشناک ہو سکتی ہے اور اسے فوراً وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

21 اپریل کو بھی اسلام آباد میں کورونا مریضوں کا دباؤ تین سرکاری اسپتالوں پر زیادہ رہا جن میں پمز اسپتال کے 183 بیڈز میں سے 149 پر کورونا مریض، آئی ایچ آئی ٹی سی کے 105 بیڈز میں سے 100 پر مریض، پولی کلینک میں 47 بیڈز میں سے 30 پر کورونا مریض زیر علاج تھے۔

ذرائع کے مطابق سی ڈی اے اسپتال میں 58 بیڈز میں سے 42 پر کورونا مریض داخل ہیں، پمز سمیت دیگر دو اسپتالوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ باقی اسپتالوں میں ناصرف سہولیات بڑھائی جائیں بلکہ ماہر عملہ بھی تعینات کیا جائے۔

مزید خبریں :