Time 26 اپریل ، 2021
پاکستان

ہول سیل مارکیٹ میں سستے ہونے کے باوجود پشاور میں ماسک اور سینیٹائزر مہنگے داموں فروخت ہونے لگے

کورونا کی پہلی لہر میں جس طرح ماسک، سینیٹائزراور گلوز بلیک میں فروخت ہوئے اب ایسا نہیں ہے، ڈیلر— فوٹو:فائل 

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کورونا وبا کی تیسری لہر کے دوران کورونا سے بچاؤ کیلئے استعمال ہونے والے ماسک، ہینڈ سینیٹائزر اور گلوز مارکیٹ میں وافر مقدار میں موجود ہیں جبکہ ہول سیل مارکیٹ سے نکلنے کے بعد یہی اشیاء پرچون میں دگنی قیمتوں پرفروخت کی جارہی ہیں۔

کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے استعمال ہونے والے حفاظتی ماسک، سینیٹائزر اور گلوز(دستانے) پشاور میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔

شہر کی بڑی ہول سیل مارکیٹ نمک منڈی کے ڈیلر محمد ندیم نے جیو نیوز کو بتایا کہ مار کیٹ میں ماسک، سینیٹائزر اور گلوز کی کمی نہیں ہے جبکہ کورونا کی پہلی لہر میں جس طرح یہ سامان بلیک میں فروخت ہوئے اب ایسا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اُس وقت پاکستان میں دو سے تین فیکٹریاں تھیں مگر اب بڑی تعداد میں ماسک اور گلوز ملک میں ہی بن رہے ہیں اوربیرون ملک سے بھی درآمد کیے جارہے ہیں۔

ہول سیل ڈیلر محمد ندیم کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والے سرجیکل ماسک کا ڈبا جو 50 ماسک پر مشتمل ہے، ہول سیل میں 120 روپے کا فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ چینی ماسک کا ڈبا 160 روپے میں فروخت ہورہا ہے یعنی پاکستانی فی ماسک ڈھائی روپے اور چائنہ کا ماسک تین روپے 20 پیسے میں فروخت ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ 50 حفاظتی دستانوں کے جوڑے کا کاٹن 1100 روپے میں ہول سیل میں فروخت کیا جارہا ہے یعنی 22 روپے فی جوڑا بک رہا ہے۔

پشاور کے صدر بازار میں ماسک اور گلوز پرچون ریٹ پر بیچنے والے عمر خان نے جیو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ چند دنوں میں ماسک اور گلوز کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے ماسک اور دستانے بیچنے کاکام کورونا کی پہلی لہر کے دوران شروع کیا تھا۔

عمر خان نے بتایا کہ سرجیکل ماسک 10 روپے اور مختلف ڈیزائن کے بنے ہوئے کپڑے کا ماسک 20 روپے سے لیکر 100 روپے تک کا فروخت کرتا ہوں جس سے اس کی مناسب آمدن ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ترجمان کامران بنگش نے جیو نیوز کو بتایا کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران ماسک، ہینڈ سینیٹائزرز اور گلوز مارکیٹ میں بلیک میں فروخت ہوئے جس پر بعد ازاں حکومت نے ایکشن لیتے ہوئے کارروائیاں کیں جس کے باعث دیکھا جا سکتا ہے کہ ان اشیاء کی قیمتیں اب کنٹرول میں ہیں۔

مزید خبریں :