پاکستان
Time 30 اپریل ، 2021

ایک سال کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں 40 فیصد اضافہ

پاکستان میں صحافیوں پر زندگی مزید تنگ ہوگئی ، ایک سال کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوگیا۔

پاکستان فریڈم نیٹ ورک کی تازہ ترین رپورٹ نے صحافیوں پر حملوں اور ہراسانی کے واقعات میں گزشتہ ایک سال میں 40 فیصد اضافہ ہونے کا انکشا ف کیا ہے۔

ادارے کے مطابق گزشتہ سا ل مئی 2019 سے اپریل 2020 تک صحافیوں اور میڈیا کے کارکنوں پر حملوں اوردیگر خلاف ورزیوں کے 91 واقعات رپورٹ ہوئے لیکن اس سال اسی نوعیت کے 148 واقعات دیکھے گئے۔

رپورٹ میں صحافیوں کی آواز دبانے کےلیے قانونی مقدمات کے قیام کے بڑھتے ہوئے رجحان کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا جبکہ پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد صحافیوں کےلیے سب سے زیادہ خطرناک ٹھہرا۔

پاکستان فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق اس سال صحافیوں پرجو 148 حملے کیے گئے اس میں6 واقعات میں صحافی اپنی فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کیےگئے۔ 7 واقعات میں قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کی گئی، 5واقعات اغواء کے رپورٹ ہوئے، جبکہ 25 میں صحافیوں کو حراست یا نظربند کیا گیا۔

تشدداور زدوکوب کرنے کے 15واقعات ہوئےجبکہ اس سال صحافیوں کیخلاف 27 مختلف نوعیت کے قانونی مقدمات قائم کیے گئے۔

ادارے نے صحافیوں کےخلاف 27قانونی مقدمات کا قیام ،جان سے مارنے اور دیگر سنگین نتائج کی 26دھمکیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حراست اور نظربندی کے 25 واقعات کو صحافیوں کیخلاف حملوں اور ہراسانی کے کل واقعات کا 60 فیصد بتایا ہے ۔

رپورٹ میں148 میں سے 51 واقعات کے باعث اسلام آباد کو صحافیوں کےلیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے ۔جس کے بعد 38کیسز کے ساتھ سندھ فہرست میں دوسرے تو پنجاب 29 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا ۔ خیبرپختونخوا میں صحافیوں پر حملوں اور ہراسانی کے 13واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ جموں و کشمیر میں 9 تو بلوچستان سے 8 واقعات رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں دیکھا گیا کے 148 میں سے 54 فیصد واقعات میں الیکٹرانک میڈیا سے جڑے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ 38 فیصد میں پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی تو 7 فیصد واقعات میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے جڑے صحافی ٹارگٹ ہوئے۔

فریڈم نیٹ ورک نے جن اداروں اور گروپس کی جانب سے صحافیوں کو سب سے زیادہ خطرہ قرار دیا اس میں ریاست اور اس سے جڑے ادارے پہلے نمبر پر رہے۔ ادارے کے مطابق 46 فیصد واقعات میں متاثرین کے اہل خانہ نے ریاستی اداروں کو صحافیوں کو ہراساں کرنے اور دیگر خلاف ورزیوں میں ملوث ہونےکے شک کا اظہا ر کیا جس میں اغواء ، حراست ، نظر بندی ، زدوکوب کرنا ، زبانی دھمکیاں دینا،گھروں پر حملہ کرنے ، سنسر شپ کے نفاذ اور قانونی مقدمات قائم کرنے جیسے دیگر طریقوں کے ذریعے صحافیوں کی آواز بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔

جس کے بعد 25 فیصد واقعات میں  لینڈ مافیا، جاگیرداروں، وکلاء، مذہبی رہنماؤں اور دیگر کے ملوث ہونے کا بتایا گیا، 6فیصد میں سیاسی جماعتوں ، 4 فیصد میں جرائم پیشہ گروہوں، 1 فیصد میں غیر ریاستی عناصر جبکہ 1 فیصد واقعات میں مذہبی گروہوں کی جانب سے صحافیوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا۔

مزید خبریں :