’’بے بے‘‘

ہر ماں عظیم ہے۔ ہر انسان کے لئے موجود انسانوں میں سےاپنی ماں ہی سب سے زیادہ پیاری اور عظیم ہوا کرتی ہے اور  ہونی بھی چاہئے۔ صرف میری ماں(جنہیں ہم ”بے بے“ کہہ کر پکارتے تھے) نہیں بلکہ ہر ماں کے قدموں تلے جنت ہے تاہم میرے لئے، میری بے بے کئی حوالوں سے خاص اور منفردتھیں۔ 

میں کچھ بھی نہیں تھا اور جو کچھ بھی ہوں، یہ سب کچھ رب العالمین کے کرم اور بے بے کی دعاوں کا مرہونِ منت ہے۔ مجھ میں کوئی کمال نہیں۔  میری ہر خامی، میری اپنی ہے اور کوئی خوبی ہے تو وہ رب العالمین کے کرم اور اس ماں کی دین ہے۔ اس وقت جو کچھ ہے اس کا میں اہل تھا اور نہ مستحق۔ اس کا سوچا تھا اور نہ اس کے لئے کوئی پلاننگ کی تھی۔رزق، عزت،شہرت، تعلق اور لوگوں کا پیار،سب میرے تصور اور استحقاق سے ہزاروں گنا بڑھ کر ملا اور یہ سب کچھ ان کی تربیت، قربانیوں اور دعاوں کی برکت ہے۔

میرے والد (ﷲ غریق رحمت کرے) ایک زمیندار تھے۔ تنگدستی تھی اور دیہاتی زندگی کی مشقتیں بھی۔ میں بہت چھوٹا تھا کہ والد کو ﷲ نے اپنے پاس بلالیا۔ یوں میری ماں کو باپ کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنی پڑیں۔ اس کے بعد کے چار عشروں کی زندگی انہوں نے ہمارے لئے قربان کردی۔ اپنی حیا و عفت کی بھی رکھوالی کی اور بچوں کی عزت و تربیت کی بھی نگرانی کی۔ خود پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن ہمیں پڑھایا۔

سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں کہ اس عمر میں شوہر کی جدائی کی شکار ہو جانے والی سیدھی سادی، قبائلی، دیہاتی، نمازی، پردہ دار اور مشرقی و قبائلی روایات پر سختی سے کاربند خاتون نے یہ سب کچھ کیسے ممکن بنایا اور ایسا کرتے وقت وہ کن اذیتوں، مشقتوں اور کرب سے گزری ہوں گی؟ پھر یہ کہ ہم آسان اولاد کے زمرے میں بھی نہیں آتے تھے۔سب سے بڑے بھائی اور بڑی بہنوں نے تواس وقت اپنے حصے کی قربانی دے کر ان کا ہاتھ بٹایا لیکن میں ان کے لئے سب سے مشکل اور ناقابل کنٹرول بچہ بنا رہا۔ دوران اسکول آٹھویں جماعت میں تھا کہ طلبہ سیاست شروع کی۔ تب لڑائی جھگڑے اس سیاست کا لازمی حصہ تھے بلکہ میں جس تنظیم سے وابستہ تھا تو اس میں افغانستان کی جنگ میں شمولیت کے مرحلے بھی آتے رہے۔ 

شعور کی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد میں اپنے آپ کو ملامت کرتا کہ میں جب کالج جاتے ہوئے کبھی کبھی کتابوں کے ساتھ پستول سمیت گھر سے نکلتا تو نہ جانے گھر واپسی تک میری ماں کے دل پہ کیا گزرتی ہوگی؟ نہ جانے ان دنوں وہ کس کرب سے گزری ہوں گی کہ جب میرا میٹرک کا نتیجہ آرہا تھا تو میں ان کی اجازت کے بغیر صوبہ کنڑ کے پہاڑوں میں بیٹھا تھا اور بے چاری والدہ کو کوئی علم تک نہیں تھا کہ میں زندہ ہوں یا مردہ ۔لیکن عظیم ماں کی عظمت دیکھیں کہ میری طرف سے اتنے دکھ ملنے کے باوجود ہر مرحلے پر دعاوں کا حصار  بنا کر وہ میرے لئے ڈھال بنی رہیں۔ 

مجھے ان کی دعائیں کئی مرتبہ موت کے منہ سے نکال لائیں۔ ایک ساتھی اور گواہ سہیل قلندر تو ﷲ کو پیارے ہوگئے لیکن احمد گل اور عارف خان جیسے دوست زندہ اور شاہد ہیں کہ کس طرح ہمیں مارنے کے لئے ننگر ہار صوبے میں جہاز سے گرایا گیا نیپام بم اس ماں کی دعاوں نے ڈھال بن کر پھٹنے نہ دیا اور ہم معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔ 

میدان صحافت میں قدم رکھا تو نظریاتی اور کئی دیگر حوالوں سے سوچ یکسر بدل گئی تھی لیکن پنگے لینے کی عادت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی۔ ابتدائی ایام میں افغانستان میں طالبان نے اپنے دوست اعظم خان سمیت قیدی بنایا۔ پاکستان میں کسی کو خبر نہ تھی اورحالات ایسے بن گئے تھے کہ جن طالبان کی تحویل میں تھا، انہوں نے کسی صورت زندہ نہیں چھوڑنا تھا۔جسمانی ٹارچر کے ساتھ ہر روز ہر لمحہ ذبح ہوجانے کا انتظار کرتا رہا لیکن وہاںﷲ رب العالمین نے اس ماں کی یاد مجھ پر اس حد تک طاری کرادی کہ موت کا خوف ہی ختم ہوگیا اور پھر چند روز بعد ایک بار پھر ان کی دعائیں مجھے وہاں سے زندہ نکال لائیں۔

بطور صحافی کئی حوالوں سے اسٹیبلشمنٹ اور ہواوں کے مخالف سمت چلا۔ انتہاپسند گروپس کا ٹارگٹ رہا۔ شاید ہی کوئی حکومت ایسی گزری ہو کہ جس سے لڑا نہیں لیکن ان کی محبتوں اور دعاوں کا حصار مجھے بچاتا اور سرخرو کرتا رہا۔ اﷲ کے کرم اور ماں کی ان سختیوں، مشقتوں اور دعاوں کے طفیل اچھا وقت آیا، رزق کے ذرائع وسیع ہوگئے۔ عزت ملی، شہرت ملی تو ان کو بیماریوں نے آلیا۔ 2008 میں دل کا پہلا دورہ پڑا۔ بائیس سال سے شوگر کا مرض۔ پھر دیگر امراض ساتھ ملتے رہے اور  پچھلے ڈھائی سال سے بستر پر یا پھر اسپتال۔ 

بعض لوگ حیران تھے کہ سلیم ہر وقت ماں ماں کا ورد کیوں کرتا ہے تو اس کی ایک وجہ میرے لڑکپن اور جوانی کی وہ خفت اور احساس گناہ بھی تھا، کہ جس کی وجہ سے میں دانستہ یا نادانستہ ان کے دکھوں میں اضافے کا موجب بنا تھا اور گزشتہ بیس بائیس سال اپنا فرض نبھانے کے ساتھ ساتھ اس گناہ کی تلافی کی بھی کوشش کرتا رہالیکن سو زندگیاں مل جائیں تو بھی ان کے حق کا ہزارواں حصہ ادا نہیں کرسکوں گا تاہم ان کی عظمت ملاحظہ کیجئے کہ اپنی طویل ترین علالت کے ذریعے خود تکلیف میں رہ کر انہوں نے بہووں اور بیٹے بیٹیوں کو اپنے گناہ بخشوانے کے خوب مواقع بھی فراہم کئے۔ یہ بھی ان کی برکت تھی کہ ﷲ نے میرے ذہن میں یہ وہم بٹھا دیا کہ ادھر میں اسلام آباد سے نکلا نہیں اور ادھرانہیں کچھ ہوا نہیں۔ چنانچہ اﷲ نے مجھ سے یہ ناقابل عمل کام کروایا کہ گزشتہ پورے سال کے دوران مجھ جیسا بے قرارانسان ایک رات کے لئے بھی اسلام آباد سے باہر نہیں نکلا اور الحمد للہ پورا سال بغیر کسی ایک دن یا رات کے وقفےکے ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔لیکن جہاں تک ان کا تعلق ہے تو زندگی کی آخری سانس تک انہوں نے اپنی سہولت کے لئے کسی چیز کی طلب نہیں کی۔ ہم بہن بھائیوں اور بہووں سے ان کی ڈیمانڈ یا غصہ نماز، روزے، باہمی اتفاق اور اسی طرح کی باتوں سے ہی متعلق تھا۔حساس اتنی تھیں کہ خاندان سے باہر کسی دوست کی طرف سے کوئی تحفہ بھی گھر آتا تو وہ یہ کریدتیں کہ کہیں بچوں نے رشوت تو نہیں لی۔

جنازے کا وقت صبح سویرے رکھ کر، رات کو دانستہ لیٹ ٹویٹ کیا تاکہ جنازے میں رش نہ بڑھے لیکن وہ ایسی بابرکت تھیں کہ پھر بھی ہزاروں لوگوں نے جنازے میں شرکت کی اور تعزیت کے لئے آئے۔ ملک نہیں بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں جس بڑے پیمانےپر ان کے لئے دعاوں اور ختم ا لقرآن کا اہتمام ہوا، وہ میرے لئے بھی حیران کن اور ناقابل تصور تھا۔ مذہبی اور نظریاتی حوالوں سے ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے میں اپنے آپ کو اب صرف مسلمان سمجھتا ہوں اور خود کو کسی مسلک، فقہ یا فرقہ سے منسلک نہیں سمجھتا۔ 

دوسری طرف کم وبیش ہر مذہبی جماعت اورفرقے کو میں نے وقتاً فوقتاً ناراض کیا لیکن ان کی برکت دیکھ لیجئے کہ ایک طرف جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے درجنوں مدارس اور مجالس میں ان کے لئے خصوصی دعاوں کا اہتمام ہوا تو دوسری طرف ایسے ایسے لوگ تعزیت کے لئے آئے کہ شاید میرا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ میں نے پچھلے بیس دنوں میں مسلکی، سیاسی اور نظریاتی حوالوں سے متضاد اور متصادم لوگوں اور جماعتوں کو ان کی ذات پر اکٹھے دیکھا۔ پیر نقیب الرحمٰن صاحب کی عیدگاہ شریف سے لے کر کراچی کے مدنی چینل کے دعوت اسلامی کے مرکز تک میں ان کے ایصال ثواب کے لئے خصوصی دعائیہ مجالس کا اہتمام ہوا۔ ایک طرف مولانا صوفی محمد کے صاحبزادوں نے اپنے گھر پر ان کے لئے ختم قرآن کا اہتمام کیا تو دوسری طرف ملالہ یوسف زئی اور ان کے والدین ان کے لئے دست بدعا تھے۔ مولانا فضل الرحمان خلیل کے مدرسہ خالد بن ولید میں ان کے لئے ختم قرآن اور دعائیں ہوتی رہیں تو گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک میں ایسے لوگوں نے ختم قرآن کئے کہ جن سے میں پہلے سے متعارف بھی نہیں تھا۔ شیخ القرآن مولانا محمد طاہر کے پنج پیر کے مدرسے، جہاں ہر سال رمضان میں ہزاروں لوگ ان کے بیٹے مولانا طیب طاہری کے درس قرآن میں شریک ہوتے ہیں، میں ان کی مغفرت کے لئے بار بار ہاتھ بلند ہوتے رہے۔

کئی مواقع پر میرے غریب خانے پر اہل سنت اور اہل تشیع کے رہنما ایک ساتھ دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے پائے گئے تو دوسری طرف جاوید احمد غامدی اور ریحان یوسفی جیسے لوگوں کے گھروں پر ان کی مغفرت کے لئے دعائیں ہوتی رہیں۔حتیٰ کہ کئی سکھ اور ہندو رہنما بھی ان کی تعزیت کے لئے تشریف لائے۔ کشمیری مردحریت سید علی گیلانی کی شکل دیکھنے اور آواز سننے کے لئے میں خود دو سالوں سے تڑپ رہا تھا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کے نمائندے عبدﷲ گیلانی اپنا موبائل مجھے تھما کر کہنے لگے کہ گیلانی صاحب آپ سے تعزیت کرنا چاہتے ہیں۔ ویڈیو کال کے ذریعے دوسری طرف زندگی کا بیشترحصہ انڈین عقوبت خانوں میں گزارنے والے ضعیف سید علی گیلانی کو مشکل سے بات کرتے ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے دیکھا تو تھوڑی دیر کے لئے میں اپنی بے بے کا غم بھول گیا۔

یہ بے بے کے فقر، زہد اور بے غرضی کی برکت تھی کہ میرے دائیں طرف بیٹھے منظور پشتین اور بائیں طرف بیٹھے صادق سنجرانی ایک ساتھ فاتحہ خوانی کر رہے تھے۔ کورونا کی وجہ سے خانہ کعبہ کے دروازے عام مسلمانوں کے لئے بند ہیں اور محدود تعداد میں مخصوص لوگوں کو ان دنوں وہاں جانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے لیکن تین اشخاص نے وہاں سے رابطہ کرکے ان کے لئے خانہ کعبہ میں اپنی کی گئی دعاوں سے مجھے آگاہ کیا۔ رمضان کے اس مبارک مہینے میں اتنے بڑے پیمانے پر قرآن خوانی اور ان غیرمعمولی دعاوں کی برکت سے ﷲ نے ہم سب اہل خانہ کو اس عظیم سانحے کو ہمت کے ساتھ سہنے کی توفیق توبخشی لیکن میں اس سانحے کے تناظر میں تین التجائیں کرنا چاہتا ہوں۔

 ایک تو یہ کہ میری ماں کے درجات کی بلندی اور میرے پورے خاندان پر ان کی برکتوں کے سائے کے تسلسل کے لئے دعائوں کا سلسلہ بند نہ کیجئے۔ دوسری گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس کے ماں باپ زندہ ہیں، ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ جنت تو ان کے قدموں تلے ہے ہی لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر بتارہا ہوں کہ اگر کوئی اپنی دنیا بھی سنوارنا یا ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتا ہے تو ماں باپ کے قدموں میں بیٹھ جائے۔کورونا کی وبا نے ہم سے بہت سارے بزرگ چھین لئے اس لئے جو سلامت ہیں ان کاخصوصی خیال رکھیں۔ 

جو لوگ خود عقیدے کی مضبوطی یا پھر کسی سازشی تھیوری کی وجہ سے کورونا سے نہیں گھبراتے، وہ اپنی نہیں تو ان بزرگوں کی خاطر کورونا کے پھیلاو کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں جس کا واحد راستہ احتیاط ہے اور یہ بھی میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ احتیاط سے بچائو ممکن ہے۔ میری والدہ کی رحلت براہ راست کورونا کی وجہ سے نہیں ہوئی لیکن بالواسطہ اس کا کردار ضرور رہا۔ ﷲ کے فضل و کرم سے ایک سال تک احتیاطی تدابیر کی وجہ سے ہم انہیں اور اپنے آپ کوکوروناسے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے لیکن حادثہ یہ ہوا کہ یکم اپریل کو مردان میں کورونا کی وجہ سے میرے سسر صاحب کا انتقال ہوا(ان کی مغفرت کے لئے بھی خصوصی دعائوں کی درخواست ہے) اور  ساس صاحبہ بھی کورونا کا شکار ہوئیں۔

میں نے کورونا کی وجہ سے سسر صاحب کی وفات کی خبر میڈیا پر نہ آنے دی تاکہ دوسرے لوگوں کو زحمت نہ ہو لیکن وہاں مجھے، میری اہلیہ، میرے چھوٹے بھائی رشید صافی اور ان کی اہلیہ کو بھی کورونا ہوگیا۔ بڑے بھائی اور ان کی فیملی چونکہ گاوں میں ہے توہم یہی چار لوگ دو سال سے بستر پر پڑی امی کے ساتھ رہتے اور  ہمہ وقت نگرانی کرتے۔ کورونا نے ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا لیکن ہم سب کو زندگی میں پہلی بار دس بارہ دن تک ماں کو گلے لگانے سے باز رکھا۔ اس کو انہوں نے ایسے دل پہ لیا کہ ان دس دنوں میں ان کی معمول کی بیماریوں میں غیرمعمولی شدت آگئی اور ہمیں انہیں حسب روایت کلثوم اسپتال داخل کرنا پڑا۔ ایک ہفتہ تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد اسٹروک کی وجہ سے وہ ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی کے پاس چلی گئیں۔ 

اس لئے میری ہر پاکستانی اور پاکستان سے باہر رہنے والے ہر قاری سے یہ گزارش ہے کہ کورونا کو انسانیت کا قاتل سمجھیں اور اپنی نہیں تو ان بزرگوں کی خاطر احتیاط سے کام لیں۔حکومت اچھا کرے یا برا، اس معاملے میں سیاست سے بالاتر ہوکر ماسک اور سماجی فاصلہ کا خیال رکھیں۔ بزرگوں کو ہنگامی طور پر ویکسین لگائیں اور خود بھی ویکسین لگانے میں دیر نہ کریں۔جہاں تک اپنا تعلق ہے تو اقبال کی طرح مجھے بھی ”بے بے“ کے بارے میں یہ احساس کھائے جارہا ہے کہ :

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :