ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

فیصلہ کرنا ہو کہ حکومت آگے جا رہی ہے یا پیچھے، تو کیسے طے کیا جائے ؟ ظاہر ہے دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی موقف میں آگے بڑھتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے۔

موجودہ حکومت کی رفتار کا حال یہ ہے کہ یہ ایک قدم آگے چلتی ہے تو پھر دو قدم پیچھے ہٹتی ہے، یوں سیاسی سفر میں وہ آگے نہیں بڑھ رہی بلکہ پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل فواد جہلمی، خانِ اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت ساری حکومت باجماعت ہو کر قانون سازی بالخصوص انتخابی اصلاحات کی بات کر رہی تھی۔

اس سے ایسے لگا کہ حکومت آگے چلنا چاہتی ہے، ماضی کے احتسابانہ رویوں کو چھوڑ کر مفاہمانہ رویّوں کی طرف مائل ہونا چاہتی ہے، میرے جیسے کئی لکھنے والوں نے اپوزیشن کو اس مفاہمت کا ساتھ دینے پر قائل کرنےکی کوشش کی، یہ تو بھلا ہو اپوزیشن کا کہ وہ حکومت کی چالوں کو سمجھتی ہے، وہ ان کے پھندے میں نہ آئی ورنہ اب پچھتا رہی ہوتی کیونکہ حکومت کو جونہی علم ہوا شہباز شریف کو عدالت عالیہ نے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے وہ فوری طور پر اصلاحاتی ایجنڈے سے پھر کر دوبارہ احتسابی ایجنڈے پر آگئی۔

جس روز یہ فیصلہ آیا وزیراعظم سعودی عرب روانہ ہونے والے تھے مگر انہوں نے جانے سے پہلے وزیراعظم ہائوس میں ایک ہنگامی اجلاس کو یقینی بنایا اور اپنے وزراء کو تاکید کی کہ شہباز شریف کو باہر جانے سے روکنے کے لئے انتظامی اور عدالتی تمام اقدامات کئے جائیں چنانچہ اسی روز حکومتی وزراء اپنا مفاہمتی راگ بھول گئے اور پھر سے احتسابی راگ کا الاپ شروع کردیا۔

ظاہر ہے اس سے حکومت کا اصلاحاتی بیانیہ دو قدم پیچھے چلا گیا اور ملک پھر سے سیاسی محاذ آرائی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا مرکز بن گیا ہے۔ خواجہ آصف اور جاوید لطیف تاحال پسِ دیوارزنداں ہیں گویا احتسابی ایجنڈا پورے زور و شور سے جاری ہے، ایسے میں یہ توقع ہی فضول ہے کہ کوئی مستقبل کے بارے میں سوچے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بے شک لڑتے جھگڑتے رہتے لیکن ایسا ماحول ضرور برقرار رکھتے جس سے پارلیمان چلتی رہتی، قانون سازی اور اصلاحات جاری رہتیں تاکہ اگلے الیکشن پہلے سے بہتر ماحول میں منعقد ہو پاتے۔

فرض کر لیں کہ حکومت اپنا پورا زور لگا کر شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک لیتی ہے تو کیا یہ کوئی بڑا کارنامہ ہوگا؟ کہا جاتا ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر شہباز شریف بیرون ملک چلے گئے تو یہ تاثر ابھرے گا کہ یا تو حکومت یا پھر طاقتوروں سے ڈیل کے نتیجے میں شہباز شریف بیرون ملک گئے ہیں۔ حکومت اپنے ساتھ ڈیل کا تاثر ختم کرنے کے لئے ہی شہباز شریف کے خلاف بھرپور مہم چلا رہی ہے۔

کار پردازانِ حکومت کا خیال ہے کہ اگر شہباز شریف اور طاقتوروں کے درمیان بھی کوئی ڈیل ہے تو اس کی شدید مخالفت کرکے اس پر عمل ہونے سے روکا جائے اور ایسی مہم چلائی جائے کہ اگر شہباز شریف اس کے باوجود عدالت کی اجازت یا کسی کی مہربانی سے باہر چلے جائیں تو سب کو پتہ چل جائے کہ وہ طاقتوروں کے ساتھ ڈیل کے نتیجے میں باہر گئے ہیں، یوں طاقتوروں اور شہباز شریف کے گٹھ جوڑ کو بےنقاب کیا جائے۔

بظاہر پی ٹی آئی کی یہ سیاسی حکمت عملی بڑی عیارانہ ہے مگر اس حکمت عملی میں ایک خامی ہے کہ اگر واقعی شہباز شریف تمام تر حربے ناکام بنا کر باہر چلے گئے تو اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو جو سیاسی ہزیمت ہوگی وہ کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہی معاملہ مقتدرہ اور حکومت کے درمیان اختلافات کی خلیج کو مزید بڑھا دے اور حکومت مشکل میں گرفتار ہو جائے۔

پاکستانی ریاست اس وقت سیاسی سے زیادہ ریاستی معاملات کی طرف متوجہ دکھائی دیتی ہے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اس خطے کے لئے بہت بڑی تبدیلی ہوگا اور اس تبدیلی میں پاکستان کا کردار اہم ترین ہوگا۔

کئی دہائیوں کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستانی حکومت بیرونی دنیا کو یہ یقین دہانی کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ پاکستان کا افغانستان کے بارے میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان افغانستان کے اندر کسی فریق کو اپنا پسندیدہ اور دوسرے کو غیر پسندیدہ سمجھتا ہے

پاکستانی ریاست کی افغان پالیسی کے حوالے سے اس کامیاب حکمت عملی کے باوجود بیرونی دنیا پاکستان پر مہربان نہیں ہے، نہ کسی ملک نے امداد دی ہے اور نہ ہی امریکہ پاکستان سے کوئی وعدہ وعید کر رہا ہے، شاید امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی دیکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی افواج کے انخلاکے بعد کہیں طالبان کے حق میں جھکائو تو نہیں دکھائے گا۔

دوسری طرف ریاست پاکستان بھارت کے ساتھ معاملات کو بھی امن کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش میں ہے، انتظار کیا جا رہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ناجائز اقدامات واپس لے تاکہ اس کے بعد مذاکرات کا کوئی دور شروع کیا جا سکے۔

ریاست پاکستان کے لوگ اور سیاستدان ملکی سیاست کو اہم ترین گردانتے ہیں لیکن ریاست پاکستان کو چلانے والوں کی ترجیح سیاست نہیں بہرحال ریاستی معاملات ہیں، افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت اہم ترین حیثیت اختیار کر چکے ہیں حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے دورے کے دوران بھی پاک بھارت تعلقات کی بہتری پر زور دیا گیا۔

باقی رہا سیاست کا احوال تو ترین فیکٹر کے معاملات کسی نہ کسی حد تک طے ہو رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر مصالحانہ کوششوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ان کی شخصیت میں مفاہمانہ پن پایا جاتا ہے ان کے والد ایس ایم ظفر دانش مند ہونے کے ساتھ ساتھ مصالحت پسند بھی تھے اسی لئے تو قع ہے کہ بیرسٹر علی ظفر، ترین اور پی ٹی آئی میں خلیج کو گہرا کرنے کی بجائے پاٹنے کی کوشش کریں گے۔

گورننس اور معیشت میں کوئی نمایاں بہتری آنے کا امکان نہیں البتہ شوکت ترین معاملات کوتھوڑا بہت بہتر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ شاید معیشت کو ٹریک پر لے آئیں گے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں اسی بےڈھنگی چال سے چلتی جا رہی ہیں خانِ اعظم کی وزیراعلیٰ بزدار اور محمود خان کی تعریفوں کے باوجود ان کی قیادت کا تاثر جم نہیں سکا، بلکہ ابھی تک اس پر قسم قسم کے اعتراضات جاری ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وہ لوگ جو اصلاحِ احوال کے لئے مشورے دیا کرتے تھے انہیں بھی یقین ہو گیا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں ہونے والی چنانچہ وہ بھی خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی ایسا خفیہ کرشمہ نہیں بچاہے جو وہ اگلے دو برسوں میں دکھا کر لوگوں کو مطمئن کر سکے اب تو آٹا، چینی اور دال کی قیمتوں کی اونچ نیچ کا کھیل ہی جاری رہے گا اور اسی پر حکومت چلانا پڑے گی نہ کوئی صنعت سازی، نہ دنیا کی پہلی 20اُبھرتی معیشتوں میں شمار، نہ کوئی بڑے وعدے، نہ کوئی خاص امید۔ یہ حکومت اسی طرح چلتی رہے گی یونہی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔