02 جون ، 2021
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیزصدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست میں ریمارکس دیے کہ کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو دل میں آئے وہ بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیزصدیقی کی برطرفی کےخلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیےکہ کھل کر بات کرنے کی آڑ میں جو دل میں آئے وہ بولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے؟
وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ ماضی میں سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کےخلاف اپیلیں سنتی رہی ہے۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ماضی کے مقدمات میں جوڈیشل کونسل کی حتمی سفارش نہیں آئی تھی، شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کونسل سفارش پر عمل بھی ہوُچکا۔
شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ جج کو صرف ایک انتظامی حکم پرنہیں نکالاجاسکتا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارا کام آئین کی تشریح کرنا ہے ترمیم نہیں آپ چاہیں تو پارلیمان سے آئین میں ترمیم کروا لیں، ہمارا کام آئین میں گنجائش پیدا کرنا نہیں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کی برطرفی کی سفارش سینیئر ججز کرتے ہیں کوئی اور نہیں، پہلے آئین کے آرٹیکل 211 کی رکاوٹ عبور کرنا ہو گی۔
انہوں نے مزید ریمارکس بھی دیے کہ شوکت عزیزصدیقی نے عدلیہ سے متعلق بہت منفی تقریر کی، جس عدلیہ کو برا کہا اب اسی میں واپسی کیلئے کوشش کر رہے ہیں، عدلیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حقوق کا تحفظ کیا تھا، دو ماہ بعد شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے ساتھ جواباً جو کیا وہ بھی دیکھیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔