05 جون ، 2021
2003کے بعد جب افغانستان سے متعلق ایک اور طرح کی گیم شروع ہوئی تو ہم جیسے طالب علم جو اصلاً متاثرین بھی تھے، ریاست پاکستان کی اس پالیسی پر تنقید کرتے اور اس کی قیمت ادا کرتے رہے۔ عرض کرتا رہا کہ دو عملی درست نہیں، اس کانتیجہ برا نکلتا ہے ، اس لئے یا تو ہمیں امریکہ اور عالمی برادری کا ساتھ دینا چاہئے یا پھر طالبان کا لیکن ریاست نے دو کشتیوں میں سواری کی پالیسی اپنائی۔اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں طالبانائزیشن کا مسئلہ سامنا آیا اور خود پاکستان دہشتستان بن گیا۔ اگر یہ دوغلی پالیسی نہ ہوتی تو پاکستان میں تحریک طالبان بنتی،نہ آپریشنوں کی ضرورت ہوتی اور نہ ہی ردعمل میں پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں سامنے آتیں۔
اس پالیسی کی سپورٹ کے لئے پہلے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو استعمال کیا گیا اور پھر ذمہ داری عمران خان صاحب نے سنبھال لی۔ہماری حکومت امریکہ اور دنیا کو باور کراتی رہی کہ ہم اس جنگ میں آپ کے ساتھ ہیں لیکن وہ الزام دیتے رہے کہ نہیں آپ کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں اور آپ ان کی درپردہ مدد کررہے ہیں۔ تاہم مذہبی رہنما اور عمران خان کھل کر طالبان کی جیت اور امریکہ کی شکست کی نویدیں سناتے رہے۔ اگرچہ میری رائے مختلف ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ معاملہ اب بھی سارے کا سارا امریکہ کے ہاتھ میں ہے لیکن بظاہر امریکہ کو شکست ہوئی اور طالبان فاتح کے طور پر سامنے آئے۔
اس لئے پاکستان کے مذہبی حلقوں اور ”دفاعی تجزیہ نگاروں“ کی صفوں میں جشن کی سی کیفیت ہے لیکن دوسری طرف حکومتی اور ریاست کو چلانے والے حلقوں کی صفوں میں الٹا کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان کی قیادت میں حکومت پاکستان جشنِ فتح مناتی کیونکہ انہیں اصرار ہے کہ افغانستان اور طالبان سے متعلق ان کی سوچ درست تھی لیکن جب ان کو ایک اہم جگہ پر اس حوالے سے ایک اہم بریفنگ دے دی گئی اور ان خطرات سے آگاہ کیا گیا جن کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے تو وہ ششدر رہ گئے۔
پاکستان کے لئے معاملہ کتنا سنگین اور خطرناک بن گیاہے ؟، اس کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت افغانستان کے حالات کیا ہیں اور یہ کہ پاکستان سے کون کیا چاہتا ہے ؟افغانستان کے حالات کااجمال یہ ہے کہ اس کے بائیس صوبوں میں طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے مابین جنگ جاری ہے۔ کابل میں خوف و ہراس پھیلا ہے اور کوئی دن وہاں دھماکوں کے بغیر نہیں گزرتا۔ اہلِ دانش اور اہل سرمایہ وہاں سے بیرون ملک منتقل ہونے لگے ہیں۔ کابل حکومت اور شہریوں میں پاکستان کے خلاف نفرت عروج پر ہے اور وہ الزام لگاتے ہیں کہ طالبان کا دوبارہ عروج پاکستان کی وجہ سے ہوا ہے۔
قطر معاہدے کی رو سے غیرملکی افواج کاانخلا مئی کے آغاز تک مکمل ہونا تھا لیکن اب امریکہ نے طالبان سے مزید تین ماہ کی مہلت لی ہے لیکن اس مہلت کا انتظار نہیں کیا جارہا اور لگتا یہ ہے کہ 4 جولائی تک امریکہ کے تمام فوجی نکل جائیں گے۔ سرِ دست نہ تو امریکی طالبان پرکوئی گولی چلارہے ہیں اور نہ طالبان ان پر، لیکن دوسری طرف افغانوں کی آپس کی جنگ زوروں پر ہے۔ قطر معاہدے کی رو سے افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے مذاکرات کئی ماہ کی تاخیر کے بعد شروع تو ہوئے لیکن ان میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ مستقبل قریب میں ہونے کا امکان ہے۔
جو موقف ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے اپنایا ہوا ہے اور جو طالبان مطالبہ کررہے ہیں، اس میں مفاہمت کی کوئی راہ نکلتی نظر نہیں آرہی۔ طالبان کو کوئی جلدی نہیں اور ان کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کابل خود ان کی جھولی میں آگرے گا اور وہ تنہا ماضی کی طرح وہاں حکومت بنا لیں گے۔ دوسری طرف اشرف غنی کے ذہن میں یہ ہے کہ طالبان سے مفاہمت کی صورت میں ان کی چھٹی ہوگی ، اس لئے وہ بھی بظاہر جتنا مفاہمت پر زور دیتے ہیں، درحقیقت وہ مذاکرات کے لئے اتنے سنجیدہ نہیں۔ گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران پاکستان نے طالبان قیادت کی کو سمجھانے کے لئے ان پر اثر رکھنے والے علمائے کرام کو بھی ان کے ساتھ بٹھایا لیکن وہ جنگ بندی پرتیار ہیں اور نہ مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں جو افغان حکومت یا امریکی پاکستان کے ذریعے ان سے کررہے ہیں۔
اشرف غنی طالبان کی کارروائیوں یا پھر مذاکرات کے بارےمیں ان کے بے لچک رویے کے لئے پاکستان کو ہی موردالزام ٹھہرا رہے ہیں تودوسری طرف امریکہ پاکستان پر دبائو ڈال رہاہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور ترکی مذاکرات میں شمولیت پر آمادہ کرلے لیکن طالبان ماننے کو تیار نہیں۔ مذاکرات کی کامیابی سے قبل وہ جنگ بندی پر تیار نہیں جبکہ ترکی کانفرنس میں وہ مشروط شرکت کے لئے تیار ہیں۔ ترکی کانفرنس میں شمولیت کے لئے وہ بلیک لسٹ کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ کانفرنس کے مختصر ہونے جیسی شرائط عائد کررہے ہیں۔
پاکستان نے ماسکو میں روس، امریکہ اور چین وغیرہ کے ساتھ امارات اسلامیہ کی دوبارہ بحالی کی جو مخالفت کی ہے ، اس پر طالبان سخت ناراض ہیں۔ اسی طرح طالبان تقاضا کررہے ہیں کہ پاکستان انہیں سیاسی حل پر آمادہ کرنے کی بجائے ان کی مرضی کے حل میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔طالبان اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو افغان امن عمل کا حصہ بنانے کے بھی مخالف ہیں اور پاکستان سے تقاضا کررہے ہیں کہ وہ ایسے پروسس کو سپورٹ نہ کرے جس میں یہ عناصر شامل ہوں۔
دوسری طرف افغان حکومت کا پاکستان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ طالبان کو آمادہ کرلے کہ وہ موجودہ افغان سیٹ اپ کا حصہ بن جائیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی ضد ہے کہ ان کی حکومت آئینی اور منتخب ہے اورطالبان کو اس کا حصہ بن جانا چاہئے۔ وہ بار بار اس بات کو دہرارہے ہیں کہ طالبان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں اور پاکستان چاہے تو ان سے کچھ بھی کروا اور منوا سکتا ہے۔ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر افغان رہنما ڈاکٹر اشرف غنی کے رویے اور ضد کے بھی مخالف ہیں لیکن پاکستان کے کردار کے وہ بھی ناقد ہیں۔ اندازہ لگالیں کہ ہماری افغان پالیسی کے معماروں نے پاکستان کو کس بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔