09 جون ، 2021
مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ سیاست میں آتے ہی بے حس قسم کے لوگ ہیں یا سیاست میں آنے کے بعد ان پر بے حسی طاری ہو جاتی ہے۔ میرے سامنے وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کا یہ بے تکا، بے سرا، مضحکہ خیز اور ڈھیٹ قسم کا بیان موجود ہے کہ اگر میرے استعفے سے مرنے والوں کی جانیں واپس آ سکتی ہیں تو میں تیار ہوں۔
یہ کس قسم کا بیان ہے اور کس قسم کی ذہنیت کا عکاس ہے؟ کیا یہ صاحب نہیں جانتے کہ مہذب دنیا میں مہذب لوگ ایسے ہی بی ہیو کیا کرتے ہیں لیکن ہماری دنیا میں پے در پے حادثوں کی بھی کوئی قیمت ، اہمیت نہیں۔
حادثہ تھا گزر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
اور یوں بھی آبادی جتنی کم ہوگی فی کس آمدنی اسی حساب سے بڑھتی جائے گی۔ ہم نے تو انجن، ریلوے کی پٹڑیاں اور ریلوے گوداموں کا لوہا بیچ کھایا اور صرف اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ریلوے ٹریکس پر مارکیٹیں تعمیر کرکے دکانوں کے نام رکھے ’’بسم اللہ اسٹور‘‘ اور ریلوے کی زمینوں پر بھی قابض ہوگئے جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسے قبضے ’’حکام پست وبالا‘‘ سے ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔
یہ غفلت اور نااہلی ہماری حکومتوں، وزیروں، افسروں کی نہیں، فحاشی، عریانی، بے راہروی کا شکار ان بدبخت گنہگار غاصب گوروں یعنی فرنگیوں کی ہے جو ایک سازش کے تحت برصغیر میں ریلویز کا شیطانی جال پھیلا گئے اور ہمیں گڈوں، یکوں، گدھوں، گھوڑوں جیسی روحانی سواریوں سے محروم کر گئے۔
ایک کتاب ہے ’’سیتا رام کی سرگزشت‘‘ جو دراصل فرنگی فوج کے اک عام سے ہندو سپاہی کی ڈائری ہے جو اپنی ملازمت کے دوران سندھ تا افغانستان مہموں میں شامل رہا۔
وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں لوہے کی پٹریاں بچھائی جارہی ہیں اور یہ بات زبان زدعام ہے کہ فرنگی لوہے کے یہ پٹے اس لئے ڈال رہا ہے کہ ہمارے ملک کو گھسیٹ کر ولایت یعنی انگلستان لے جائے۔ ریلوے کے باقاعدہ آغاز پر سیتا رام لکھتا ہے کہ عام ہندوستانیوں کو یقین ہے کہ فرنگیوں نے ریلوے انجنوں میں جنات کو قید کر رکھا ہے جو دہکتے ہوئے انگارے کھاتے اور بھاپ چھوڑتا ابلتا پانی پیتے ہیں۔
یہ جنات جب آزاد ہونے کی جدوجہد کرتے ہیں تو ٹرین ہلنے لگتی ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انگریز نہ آتا تو آج اس خطہ کے حالات کیا ہوتے؟ میں جانتا ہوں کہ یہ سوچ منطقی ہونے کی وجہ سے مقبول نہیں ہو سکتی لیکن ذرا مختلف انداز سے سوچنے میں نقصان تو بہرحال کوئی نہیں۔
کسی کا کوئی قصور نہیں، اصل وارداتیا فرنگی ہے جس نے ٹرین متعارف کرائی ورنہ اگر ٹرین ہی نہ ہوتی تو ظاہر ہے ٹرینوں کے حادثے بھی نہ ہوتے، حادثے نہ ہوتے تو بندے بھی نہ مرتے۔ وزیر ریلوے بھی سچا ہے کہ آخر وزیر ہے کوئی انجن ڈرائیور، قلی، اسٹیشن ماسٹر تو ہے نہیں جو اتنی مہنگی اور مشکل سے حاصل کی گئی وزارت فقط ’’گریس‘‘کی وجہ سے چھوڑچھاڑ کر گھر چلا جائے کہ یہ انداز، اسلوب، مینر ازم تو کچھ اور قسم کے لوگوں پر ہی جچتا ہے۔
ضمیر کو شاید انگریزی میں CONSCIENCE کہتے ہیں۔
"CONSCIENCE: SOME THING THAT FEELS TERRIBLE WNEN EVERYTHING ELSE FEELS WONDERFUL."
اسی طرح ایک اور فضول قسم کی چیز ہوتی ہے "HONOR" جو دنیا کے بڑے سے بڑے شاپنگ مال پر بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ اس HONOR کے بارے قائد اعظمؒ نے جو فرمایا اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
’’ دولت چلی جائے تو سمجھو کچھ بھی نہیں گیا،صحت چلی جائے تو سمجھو بہت کچھ گنوا بیٹھے لیکن HONOR رخصت ہو جائے تو سمجھو کچھ بھی باقی نہیں بچا‘‘۔
لیکن ’’آنر‘‘ تو آنریبل لوگوں کا مسئلہ ہے اور جہاں معیار ہی منصب یا مال ہو وہاں آنر تو کباڑیا بھی نہیں خریدتا۔
اک اور شے INTEGRITYکہلاتی ہے لیکن یہ کمبخت بھی منڈی میں دستیاب نہیں، صرف شجرۂ نسب میں پائی جاتی ہے اور :
"THE INTEGRITY OF MEN IS TO BE MEASURED BY THEIR CONDUCT, NOT BY THEIR PROFESSIONS."
ہمارا المیہ یہ نہیں کہ حادثات وغیرہ میں کتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ ہماری اصل ٹریجڈی یہ ہے کہ CONSCIENCE ، HONOR اور INTEGRITYنجانے کون سے حادثہ میں اس طرح موت کے گھاٹ اتریں کہ لاشیں بری طرح کچلی گئیں اور چہرے اس طرح مسخ ہوئے کہ پہچاننا ہی ممکن نہیں رہا۔.مدتوں سے ان لاوارث گمنام لاشوں کے لواحقین کا انتظار ہے تاکہ انہیں کفنایا دفنایا جا سکے۔
’’یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘‘
ٹرین حادثہ میں نہ مرتے تو بھوک، ننگ، بے روزگاری کے ہاتھوں مر جاتے۔
میرے منہ میں خاک ،اگلےحادثہ تک کے لئے اللہ کے سپرد، ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔