ڈھرکی ٹرین حادثہ، حکومت کی بے حسی

صوبہ سندھ میں ڈھرکی کے قریب2ٹرینوں ملت ایکسپریس اور سرسیدایکسپریس کے درمیان ہونے والے ٹکراؤکے نتیجے میں70مسافر شہید جبکہ 100زائد زخمی ہوگئے، اس خبر نے پوری قوم کو تڑپا کر رکھ دیا۔ 

بجائے اس کے حکومتی وزیر اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرکے ازخود مستعفی ہو جاتے،الٹا انہیں اٹکھیلیاں سوجھ رہی ہیں اور وہ ٹرین حادثے میں 3 سال پہلے کے حکمرانوں کو ملوث قرار دے رہے ہیں، یہ مذاق نہیں تو پھر کیا ہے؟اس خوفناک حادثے میں مسافروں اور ان کے لواحقین کو کس درد ناک کیفیت سے گزرنا پڑا، اس کا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اگر یاد ہو تو 31اکتوبر2019ء کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس کی3 بوگیوں میں لیاقت پور کے قریب آگ لگی تھی اور اس آگ میں 80 مسافر زندہ جل مرے۔ تب شیخ رشید وزیر ریلوے تھے۔ سانحہ تیز گام کی تحقیقات کے بعد جن 15افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ انہیں فقط ’’معطلی‘‘ کی سزا تک ہی محدود رکھا گیا یعنی جن کی وجہ سے 5درجن انسان زندہ جل مرے۔ 

انہیں فقط ’’معطل‘‘ کرکے جان چھڑالی گئی۔مجھے چیف جسٹس کے وہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جو انہوں نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران شیخ رشید پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ادا کئے تھے کہ’’بتاؤ 70 مسافروں کے مرنےکا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے؟ 

ریل میں آگ کے واقعہ پر تو آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا‘‘ الحمداللہ ریلوے میں اعلیٰ ترین کارکردگی کی بنیاد پر شیخ رشید کو وزیر داخلہ کا منصب عطا کر دیا گیا، آج اعظم سواتی ریلوے کے وزیر ہیں ،دیکھتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد ریلوے میں اعلیٰ ترین کارکردگی کی بنیاد پر انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر کب تک بنایا جاتا ہے۔

پاکستان ریلوے کی تاریخ اس قسم کے خونیں حادثات سے بھری پڑی ہے، شیخ رشید جب وزیر ریلوے تھے تب تو ریلوے حادثہ معمول کی بات سمجھا جاتا تھا لیکن ذمہ داری اس وقت بھی کوئی وزیر قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔

 میں یہ نہیں لکھ رہا کہ اس ریلوے حادثہ کا ذمہ دار صرف تنہا وزیر ریلوے ہی ہوتا ہے، نہیں اس میں یقینا ریلوے ملازمین اور ریلوے حکام کی غفلت بھی شامل ہوتی ہے۔ جن کو ہم ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں اس قسم کے حادثات وہاں اگر ہو جائیں تو کوئی نہ کوئی ذمہ داری قبول کرتا ہے، اپنے پچھلوں کو کوسنے کی بجائے خود اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتا ہے۔

 یہ عمل ہمارے ہاں بھی شروع ہو جائے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں چونکہ فواد چوہدری، شیخ رشید اور اعظم سواتی جیسے ’’اعلیٰ‘‘ وزراء کی فوج ظفر موج ہے۔ اس لئے یہاں ہونے والے حادثات کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال کر مرنے والے مسافروں کے خون کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ 

ریلوے میں اگر کوئی بہتری ہو جائے تو اس کا کریڈٹ وزیر ریلوے اور حکومت کے لئے، لیکن اگر کوئی سانحہ پیش آجائے تو حکومت کے3 سال بعد بھی اس کی ذمہ داری یہ خواجہ سعد رفیق پر ڈالتے ہوئے نہیں شرماتے۔ ہولناک سانحےپر پی ٹی آئی وزراء اور رہنماؤں کے بیانات جلتی پر تیل کا کام تو کر ہی رہے تھےکہ حکومت کی خوشامد میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان سب پر بازی لے گئیں۔

موصوفہ نے سانحہ کے بعد بیان صفائی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ اس سال کا پہلا ٹرین حادثہ ہےگویا ان کے نزدیک 60انسانی جانوں کا ضائع ہونا،مقام شکر ہے۔ جشن منائیں کہ سال کے پہلے ٹرین حادثہ میں بات صرف 60مرد وخواتین اور بچوں کی ’’بھینٹ‘‘ پر ٹل گئی۔جشن منائیں کہ 60افراد کوکشاکش حیات سے چھٹکارا نصیب ہو ا۔

اب وہ سب ٹھاٹ سے نم اور خنک قبروں میں تاقیامت چین کی نیند سوتے رہیں گے۔جشن منائیں ان کے پسماندگان کے لئے کہ اب یتیموں اور بیوائوں کو عیش کی زندگی گزارنے کیلئے لاکھوں روپے خوں بہا ملےگا۔

قوم کو یاد ہے ماضی میں کوئی کشتی غرق ہونے یا ٹرین حادثے پر غم و غصہ سے نڈھال عمران خان کیا فرمایا کرتے تھے۔ان کے فرمودات تھے کہ حکمرانوں میں اگر شرم ہو تی تو قوم سے معافی مانگ کر استعفے دے دیتے۔ساتھ ہی وہ غیر ملکی سربراہان کی مثال بھی پیش کرتے،مگر اقتدار میں آکر شاید یہ سب فراموش کر بیٹھے ہیں ۔

اس المناک حادثے پر اگر وزیر ریلوے اعظم سواتی خود مستعفی نہیں ہوتے تو انہیں فارغ کرنا وزیر اعظم کا فرض تھا۔ماضی میں پیش آئے ان گنت حادثوں کی طرح اس سانحہ کا ملبہ بھی کسی انتظامی افسر پر ڈال کر اسے معطل یا برخاست کردیا جائے گا۔اور اس کی تیاری بھی ہو چکی ہے اور سانحہ گھوٹکی کے حوالے سے ڈی ایس ریلوے سکھر کو قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری جاری ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اگر یہ کہا کہ ’’وزیر ریلوے اعظم سواتی سے استعفیٰ مانگنا بے تکی بات ہے‘‘ تو بالکل ٹھیک کہا کیونکہ استعفیٰ صرف وزیر ریلوے ہی نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان سے بھی مانگنا چاہیے، بڑ امضحکہ بیان وزیر ریلوے نے دیا ہے کہ اگر میرے استعفیٰ سے یہ زندہ ہوجائیں تو میں استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہوں ۔یہ حادثات ہمیشہ ہوتے رہیں گے ،جب تک ہم ذمہ داروں کا احتساب نہیں کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔