16 جون ، 2021
اگرچہ امریکہ نے یہ مقصد حاصل کر لیا کہ القاعدہ اب ماضی کی طرح اس کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہی اور اس نے طالبان سے یہ گارنٹی لے لی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو اس کے خلاف استعمال نہیں کرے گا لیکن بہر حال وہ ناکامی اور شکست کے تاثر کے ساتھ افغانستان سے نکل رہا ہے۔
امریکہ جیسی طاقت، اپنے طاقتور نیٹو اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں مطلوبہ نتائج کیوں حاصل نہ کرسکی اور وہ ایک بار پھر افغانستان کوخانہ جنگی یا پھر طالبان کے سپرد کرکے کیوں نکلنے پر مجبور ہے؟ اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ امریکہ اپنی غلطیوں اور حماقتوں کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
بلاشبہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں بھی کئی محاذوں پر ناکام رہیں، پاکستان، ایران، روس اور دیگر ممالک کے طالبان کے ساتھ روابط کا بھی کردار رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں اپنی شکست کا امریکہ خود ذمہ دار ہے۔ افغانستان کے محاذ پر امریکہ نے جن غلطیوں کا ارتکاب کیا، میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اس کا اجمال کچھ یوں ہے۔
نائن الیون کے بعد سلامتی کونسل کی جس قرارداد کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں کارروائی کی اجازت ملی، اس کی روس اور چین نے بھی حمایت کی بلکہ شاید اسے چین سے ہی پیش کروایا گیا تھا۔
باب وڈورڈ نے اپنی کتاب ”بش ایٹ وار“ میں لکھا ہے کہ امریکی صدر بش گھبرارہے تھے کہ شاید روس افغانستان میں اس کی کارروائی کی مزاحمت کرے گا لیکن جب کولن پاؤل نے انہیں بتایا کہ صدر پیوٹن ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہیں تو صدر بش کی خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی لیکن افغانستان میں ابتدائی کامیابی ملنے کے بعد پہلے صدر بش نے ایران کو ایکسز آف ایول (برائی کے محور) میں شامل کیا اور پھر وہاں چین، روس اور ایرانی مفادات کے خلاف سرگرمیوں کی اجازت دے دی جس کی وجہ سے ان ممالک نے بھی 2003کے بعد اپنی پالیسیاں بدل لیں۔ یوں روس، چین اور ایران کو ناراض کرنا امریکہ کی افغانستان سے متعلق پہلی بڑی غلطی تھی۔
پرویز مشرف نے دباؤکے تحت سہی لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ کا مکمل ساتھ دیا۔ اسے زمینی اور فضائی راستہ دیا۔ طالبان سے متعلق انٹیلی جنس شیئرنگ کی جس کی وجہ سے طالبان کی حکومت امریکیوں کی توقع سے بھی پہلے ختم ہوئی۔
مشرف حکومت نے امریکیوں کی خوشنودی کے لئے طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف اور سابق افغان سفیر ڈاکٹر غیرت بھیر کو گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کیا۔ جواب میں پرویز مشرف کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ انڈیا کو افغان سرزمین پر پاکستان مخالف سرگرمیوں کی اجازت نہ دی جائے لیکن امریکہ نے اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کیا، جس کی وجہ سے افغانستان، انڈیا اور پاکستان کی پراکسی وار کا میدان بن گیا اور کچھ عرصہ بعد پاکستان نے بھی طالبان سے متعلق اپنی پالیسی بدل لی۔ انڈیا کو سرگرمیوں کی اجازت دینا امریکہ کی دوسری بڑی غلطی تھی۔
پاکستان نائن الیون کے بعد امریکہ سے مطالبہ کرتا رہا کہ وہ طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرنے کی بجائے مفاہمت پر آمادہ کرے۔ پاکستان کی کوشش رہی کہ طالبان کو بھی بون کانفرنس میں بلایا جائے لیکن امریکی طالبان کا نام سننے کو تیار نہ تھے۔
افغان صدر حامد کرزئی بھی اس رائے کے حامی تھے اور طالبان سے مفاہمت کے لئے انہوں نے صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں ایک مفاہمتی کونسل بھی تشکیل دی تھی لیکن امریکیوں نے اس کمیشن کو کام نہیں کرنے دیا۔ یہ امریکہ کی تیسری بڑی غلطی تھی۔
2002اور 2003میں افغانستان استحکام کی طرف گامزن تھا۔ آئین بن گیا۔ افغانی اپنے ملک میں واپس لوٹ رہے تھے۔ طالبان کی مزاحمت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اسی عرصہ کے دوران افغانستان میں کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا لیکن افغانستان کو پوری طرح سنبھالے بغیر امریکہ نے عراق کی جنگ چھیڑ دی جس نے افغانستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ امریکہ نے اس وقت اسپیشل فورسز اور وسائل عراق منتقل کئے۔
امریکہ کے اس اقدام کے بعد ایران نے دیکھا کہ امریکہ عراق اور افغانستان میں اپنی افواج رکھ کر اسے درمیان میں سینڈوچ کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس کے بعد ایران نے بھی طالبان اور القاعدہ سے تعلقات استوار کئے ۔
عراق جنگ کی خود افغان صدر حامد کرزئی اور حسنی مبارک جیسے امریکہ کے اتحادیوں نے بھی مخالفت کی تھی لیکن تب صدر بش طاقت کے زعم میں مبتلا تھے۔ چنانچہ چین، روس اور خطے کے دیگر ممالک نے افغانستان میں غیرملکی افواج کی موجودگی سے متعلق اپنی سوچ بدل دی جبکہ القاعدہ اور طالبان کو عراق میں ناجائز امریکی کارروائی کے بعد اپنے بیانیے کے لئے مزید دلائل اور ابوغریب جیسے فوٹیجز ہاتھ آگئے۔ یہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی چوتھی اور شاید سب سے بڑی غلطی تھی۔
افغانستان سے متعلق امریکی پالیسیاں تضادات کا بھی شکار رہیں۔ کئی حوالوں سے، کئی مواقع پر واضح نظر آرہا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وائٹ ہاؤس، سی آئی اے اور پینٹاگان ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ اسی طرح نیٹو میں شامل ممالک اور امریکہ کی اپروچ میں بھی بعض اوقات فرق نظر آتا رہا۔
مثلاً صدر اوبامانے اپنی افپاک پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایک طرف انخلا کے لئے ٹائم ٹیبل دیا اور دوسری طرف Surge کے نام پر مزید افواج افغانستان لاکر جنگ تیز کردی۔ اسی طرح صدارت سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ایک انتہا پر گئے اور پھر دوسری پر۔ شروع میں کہتے رہے کہ اگر انہوں نے اس وقت افواج نکالیں تو افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کا گڑھ بن جائے گا لیکن دو سال بعد کہتے رہے کہ پاکستان جانے اور دوسرے پڑوسی جانیں۔ تضادات پر مبنی پالیسی امریکہ کی پانچویں بڑی غلطی تھی۔
امریکیوں نے افغانستان کو افغانستان کے آئینے میں کم دیکھا اور افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں افغانستان کی داخلی سیاست بنیاد ی کردار ادا کرتی رہی۔ مثلا ًاوبامہ کی تضاد پر مبنی پالیسی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی سوچ اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے کی جلدبازی کے پیچھے بھی صدارتی انتخابات کارفرما تھے۔ یہ امریکہ کی چھٹی بڑی غلطی تھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔