17 جون ، 2021
جیسی قوم ویسے حکمران۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بدتمیزی، بدتہذیبی اور بدکلامی کا جو مقابلہ دیکھنے کو ملا وہ صرف ممبرانِ پارلیمنٹ اور حکومت و اپویشن کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے بھی شرم کا مقام تھا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران گالیاں دینے والے، گندے اور گھٹیا اشارے کرنے والے، ایک دوسروں پر بجٹ کی کتابیں ہتھیار کے طور پر پھینکنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں میں نے، آپ نے اس قوم نے منتخب کیا اور اس لئے منتخب کیا کہ وہ ہماری رہنمائی کر سکیں، اس ملک کی تقدیر کو بدل سکیں، ہمارے لئے بہتر قانون سازی اور بہتر پالیسیاں بنا سکیں۔
جو مناظر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھنے کو ملے، جس غلیظ زبان کا استعمال کیا گیا اُس سب کو دیکھ سن کر عوام کی بڑی تعداد دکھی ہے لیکن اس سوال پر غور کرنے سے سب قاصر ہیں کہ اس قسم کی اسمبلی کو چننے والے کون ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ پھر ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا پڑے گا، خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ جو ماحول قومی اسمبلی کا بن چکا، اُس میں تو کسی عزت دار شخص کے لئے وہاں جانا ہی اپنی عزت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
پہلے تو ایک دوسرے کو چور چور کہتے تھے، ڈاکو اور لٹیرے ہونے کا طعنہ دیتے تھے لیکن اب اسمبلی کے اندر مرد حضرات خواتین ممبران پر پھبتیاں کستے ہیں جن پر دوسرے خوش ہوتے ہیں اور خوش ہونے والوں اور ایسی بےہودگی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں وفاقی وزیر بھی شامل ہیں۔ خواتین اراکین بھی خوب مقابلہ کرتی ہیں، نعرے لگاتی ہیں۔ گزشتہ روز تو وفاقی وزراء میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو اس ہنگامہ آرائی اور بدتمیزی میں شریک نہ ہوا ہو۔
اپوزیشن خصوصاً ن لیگ نے اس بدتہذیبی کا خوب مقابلہ کیا، گالم گلوچ بھی کی، گندے اشارے بھی کیے، حکومتی اراکین پر بجٹ کی کتابیں بھی چلا چلا کر ماریں۔ اگرچہ ویڈیوز بنانے والوں کی زیادہ تر توجہ حکومتی اراکین کی بدتمیزی پر تھی لیکن جن لوگوں نے یہ تماشا دیکھا اُن کے مطابق اپوزیشن نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کہنے کو تو پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کے ذریعے چنے گئے معاشرہ کے بہترین اور قابل افراد پر مشتمل ہونی چاہئے لیکن ہم نے اور ہمارے اراکین اسمبلی نے ثابت کر دیا کہ پارلیمنٹ کسی عزت دار کے جانے کی جگہ نہیں۔ ہاں اگر آپ بدتمیزی، گالم گلوچ، لڑائی میں اچھے ہیں اور اپنے مخالف کو بےعزت کرنے اور اُس کی پگڑی اچھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو پھر آپ کے لئے اسمبلی بہترین جگہ ہے، آپ کو حکومت اور سیاسی جماعت میں اچھا عہدہ بھی ملے گا۔
مشیرِ اطلاعات پنجاب ڈاکٹر عاشق اعوان نے چند دن پہلے ہی ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران ایک رکن اسمبلی کو گلے سے پکڑ لیا، اُس کو تھپڑ رسید کئے، گالیاں بھی دیں لیکن اس پر نہ وزیراعظم بولے، نہ وزیراعلیٰ نے کوئی پوچھ گچھ کی نہ ہی حکمران جماعت کی طرف سے کوئی کارروائی کی گئی۔ بلکہ لگتا ایسے ہے کہ شاید موصوفہ کی تعریف کی گئی ہو گی، اُن کو شاباشی ملی ہو گی جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں خواتین اراکین پر آوازے کسنے والے اور اُنہیں ’’بِلو، بِلو‘‘ اور دوسرے بُرے ناموں سے پکارنے والے پی ٹی آئی کے لیہ سے رکنِ اسمبلی مجید نیازی نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور وہاں موجود وزراء اور حکومتی اراکینِ اسمبلی سے داد وصول کی۔
کسی ایک فرد نے مجید نیازی کو اس بدتمیزی پر نہ ٹوکا نہ روکا۔ گزشتہ روز تو ایسے لگا جیسے ہر حکومتی رکن اس کوشش میں تھا اور ہر وزیر کی بھی کوشش تھی کہ اپنی انٹری ڈالے تاکہ اُس کو بھی شاباشی ملے۔ اپوزیشن اراکین سمیت گالیاں دینے والے تو نجانے کتنے تھے لیکن ویڈیو وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ اور اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی علی اعوان کی سامنے آئی جس میں وہ گالیوں کی گردان پڑھتے سنائی دیے۔
خبروں کے مطابق اعوان کا مقابلہ ن لیگ کے روحیل اصغر کے ساتھ تھا جن کی کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بڑی روانی سے گندی گالیاں نکالتے پائے گئے جس پر ن لیگ کی قیادت یا کسی دوسرے نے کبھی شرمندگی کا اظہار کیا نہ اس کو بُرا جانا۔ اسمبلی کے حالیہ تماشے میں ایک ن لیگی ایم این اے بھی۔ ’’کتے کتے‘‘ کے نعرہ لگوا رہا تھا جس کا بڑی گرم جوشی سے جواب اُس کے ساتھی اراکین اسمبلی دے رہے تھے۔ معاملہ بہت خراب ہو چکا۔
اگر قیادت اتنی بدتہذیب اور بدتمیز ہوگی تو عوام کا کیا حال ہوگا، یہ وہ نکتہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہی بنیادی بات جس کا میں بار بار رونا روتا ہوں کہ اس معاشرے کو تربیت اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم تباہ ہی تباہ ہیں۔ کردار سازی کون کرے، معاشرہ کی تربیت کس نے کرنی ہے جب ہماری پارلیمنٹ کا یہ حال ہو گا!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔