سسٹم جواب دے چکا ہے

جب رات کے ڈھائی تین بجے ’’تنظیم سازی‘‘ ہوئی تھی تو لوگوں کو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ اب یہ سسٹم نہیں چل سکے گا مگر ہمارے سیاست دان اور کچھ امریکہ میں ٹیکسی چلانے والے ’’دانشور‘‘ بضد ہیں کہ پارلیمانی طرز حکومت ہی بہترین ہے۔

 اس نظام کے تحت ہونے والی چوریاں اور ڈکیتیاں تو آئے روز آپ کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ اب ان لوگوں کا ’’حسنِ سلوک‘‘ بھی آپ کے سامنے آ گیا ہے۔ پچھلے تین روز سے قومی اسمبلی میں گالیوں کا مقابلہ جاری ہے، ہلڑ بازی، بازاری نعرے اور جملہ بازی ہو رہی ہے۔

 تصویر کا کونسا رخ دکھایا جائے؟ ہر طرف ندامت ہے، کہیں بیہودگی اور بےشرمی ہے۔ بجٹ بک میں اﷲ اور پیارے رسولؐ کا تذکرہ ہے، اراکین ایک دوسرے پر کتابیں پھینک رہے ہیں، نہ توہین کا خوف اور نہ تقدس کا احساس، حالیہ لڑائی علی گوہر بلوچ کے غلیظ نعروں سے شروع ہوئی۔

 کاش وہ ’’تنظیم سازی‘‘ کے وقت بولتے مگر شاید انہیں سب سے زیادہ سیاسی مفاد عزیز ہو۔ جہاں ذاتی مفاد کی بات آ جائے وہاں عزت، احترام، تقدس، اسمائے گرامی، حرمت، احساس، غیرت اور دیانتداری جیسے لفظوں سے خوف آتا ہے۔ یہ تمام سسٹم کی ناکامی کی گواہی دے رہا ہے۔

 یہ لوگوں کے نمائندے ہیں جو ایوان کے اندر لُچے لفنگے لڑکوں کی طرح لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں۔ بزرگ سیاست دان شیخ روحیل اصغر نے تو گالی کو پنجابی کلچر کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ ایسی اسمبلی سے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے جہاں ایک سابق وزیراعظم کہتا ہے کہ میں اسپیکر کے منہ پر جوتا ماروں گا۔

 حکومتی رکن علی نواز اعوان نے جواباً رہی سہی گالیاں تو دی ہیں، ویڈیو بنانے والوں کو بھی داد دینی چاہئے جنہوں نے علی نواز اعوان کی گالیاں تو ریکارڈ کیں مگر لڑائی کی ابتداء میں جو ’’کلامِ جمہوریت‘‘ پڑھا گیا اسے ریکارڈ ہی نہیں کیا حالانکہ اسے ریکارڈ کرکے ’’خوش گلو‘‘ کا ایواڈ جیتا جا سکتا تھا۔ 

گزشتہ تین دن سے جو ہو رہا ہے، اسے کسی طور پر بھی صحت مند روایت نہیں کہا جا سکتا بلکہ عوامی نمائندوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس چھت تلے ہو رہا ہے جس چھت پر اﷲ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھے ہوئے ہیں، یہاں ہونے والے اجلاسوں کی ابتداء تلاوتِ قرآن حکیم اور نعتِ رسول کریمؐ سے ہوتی ہے، یہ ماحول بھی اراکینِ اسمبلی پر کارگر ثابت نہ ہو سکا۔

 خواتین کا احترام بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، کتاب لگنے سے حکومتی رکن ملیکہ بخاری کی آنکھ زخمی ہو چکی ہے۔ حکومتی وزیر زرتاج گل اپنی زخمی ساتھی کو میڈیا کے سامنے لاچکی ہیں۔ اسپیکر نے سات اراکین اسمبلی کے داخلے پر پابندی لگائی تو اپوزیشن نے ماننے سے انکار کر دیا، الٹا اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کر دیا۔

خواتین و حضرات! یہ پورا نظام ہماری آنکھوں کے سامنے برباد ہوا ہے، جیسے جیسے دولت سیاست کا حصہ بنی، حرام حلال کی تمیز ختم ہو گئی، پارٹیوں میں نظریات ختم ہو گئے۔ عزت و احترام جاتے رہے۔ چند برسوں سے بار بار لکھ رہا ہوں کہ پارلیمانی طرز حکومت ناکام ہو چکا ہے چونکہ اس نظام کے تحت مافیاز کے لوگ ایوانوں کا حصہ بن جاتے ہیں، یہیں سے کام خراب ہوتا ہے، اب تو ایوانوں میں ڈھنگ کی تقریر بھی نہیں ہوتی۔

 گزشتہ آٹھ دس برسوں سے اسمبلی اجلاسوں میں نہیں گیا، کچھ سیاست دان دوستوں نے کہا بھی مگر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ حضور! میں پارلیمنٹ کیا کرنے آئوں؟ وہاں کوئی حاجی سیف اﷲ ہے؟ کوئی عابدہ حسین، اعتزاز احسن یا حامد ناصر چٹھہ؟ کیا ایوان میں نوابزادہ نصرﷲ خان، مخدوم امین فہیم، آفتاب شعبان میرانی، مخدوم فیصل صالح حیات یا مخدوم شہاب الدین ہے؟ قومی اسمبلی میں الٰہی بخش سومرو، منظور وٹو، غوث علی شاہ، ایم حمزہ، چوہدری جعفر اقبال یا جاوید ہاشمی ہے؟ کیا ملک معراج خالد، جہانگیر بدر یا حنیف رامے ایوان میں آگئے ہیں؟ کیا وہاں راجہ منور احمد، ڈاکٹر عمران فاروق یا چودھری الطاف حسین ہیں؟

 کیا چودھری شجاعت حسین، چودھری نثار علی خان، چودھری شہباز حسین یا مخدوم زادہ حسن محمود ہیں؟ کیا قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو، بیگم نسیم ولی یا ڈاکٹر اشرف عباسی ہیں؟ اسی طرح کچھ اور نام گنواتا ہوں تو پھر میرے سیاست دان دوست چپ کر جاتے ہیں۔

 اس خاموشی پر ان سے مزید پوچھتا ہوں کہ کیا کسی ایوان میں بشریٰ رحمن اور اسلم گورداسپوری میں شعری مقابلہ ہو رہا ہے؟ کیا کہیں کوئی تابش الوری یا افضل احسن رندھاوا ہے؟ وہ پھر چپ رہتے ہیں تو میں عرض کرتا ہوں کہ سسٹم جواب دے چکا ہے،

 اس ملک میں جتنی جلدی کوئی اور سسٹم آ جائے، اتنا ہی بہتر ہے، خواہ وہ صدارتی نظام ہی کیوں نہ ہو، ویسے اس بحث میں حسن عباس رضا کے چند اشعار مزہ کریں گے کہ

میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے

کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے

پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال

کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے

اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟

بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے

پوچھا کرو گی کیا جو اگر میں نہیں رہا ؟

بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے نہیں رہے

آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال

کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے

کہنے لگی تسلیاں کیوں دے رہے ہو تم

کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے

بولی کریدتے ہو تم اس ڈھیر کو جہاں

بس راکھ رہ گئی ہے، شرارے نہیں رہے

جن سے اتر کے آتی دبے پائوں تیری یاد

خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے

میں نے کہا، جو ہو سکے، کرنا ہمیں معاف

تم جیسا چاہتی تھی، ہم ایسے نہیں رہے

اب یہ تری رضا ہے کہ جو چاہے سو کرے

ورنہ کسی کے کیا، کہ ہم اپنے نہیں رہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔