سمندر پار پاکستانیوں کی محبت

ایران کے حالیہ صدارتی انتخاب کے موقع پر مجھے اوورسیز پاکستانی بار بار یاد آتے رہے ۔یاد آنے کی بڑی وجہ ووٹ کا حق ہے ۔دنیا کے 133ملکوں میں ایرانیوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ پاکستان کے چار پانچ شہروں میں ایرانیوں نے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالا ۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور ملتان میں پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے۔

 اسی دوران ٹوکیو سے عرفان صدیقی نے اپنے کالم کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کا شکریہ ادا کیا ۔ ان کے نزدیک ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی عمران خان کے شکرگزار ہیں کہ 74سال میں پہلی مرتبہ انہیں ووٹ کا حق ملنے جا رہا ہے ۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے جب قانونی ترامیم سامنے آئیں تو اپوزیشن بے نقاب ہو گئی، خاص طور پر وہ جماعت جس کے لیڈران کو ہمیشہ بیرونی دنیا نے پناہ دی ۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما تو باقاعدہ پریس کانفرنس پر اتر آئے۔ 

اپنی فلسفیانہ باتوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ’’اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان سے متعلق کچھ پتہ نہیں، انہیں پاکستان کے مسائل کا علم نہیں ‘‘ اس سلسلے میں مجھے ذاتی تجربے کی دو چار مثالیں دینا پڑ رہی ہیں، کچھ مشاہدات بیان کرنا پڑ رہے ہیں ۔

میرے تجربے میں تو ہمیشہ یہی آیا کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو پاکستان سے بہت محبت ہے۔ وطن سے دور رہ کر ان کی محبت زیادہ جاگتی بھی ہے، بولتی بھی ہے۔ یا آپ یوں سمجھ لیں کہ ہجر کا موسم جذبات کی شدت میں عروج لے آتا ہے وہ پاکستان ڈے کو بڑی محبت سے مناتے ہیں ۔ صرف نیویارک شہر میں آٹھ سے دس تقاریب چودہ اگست کے حوالےسے منعقد ہوتی ہیں، اسی طرح ڈیلس، کیلی فورنیا، ورجینیا، میری لینڈ سمیت کئی امریکی ریاستوں میں پاکستان کا یوم آزادی منایا جاتا ہے ۔

 کئی پاکستانی امریکی سیاست میں بھی بڑے سرگرم نظر آتے ہیں ۔ قمر بشیر، ڈاکٹر سید امتیاز، شاہد رضا رانجھا، امتل رحمان، عابد بٹ، محسن ظہیر، منظور حسین، غزالہ حبیب، ریحانہ قمر، یونس اعجاز، عابد ملک، مبشر وڑائچ ،مبینہ جنجوعہ، ڈاکٹر نوید کلیر، نازیہ خان، عرفان میر، راجہ رزاق اور مہر ظہیر سرگرم ہیں ۔ 

واشنگٹن کی طرف رانا سعادت ، جانی بشیر،رضوان سیان، آمنہ انعم اور عارفہ خالد سرگرم ہیں ۔ عابد سعید اور خواجہ اکبر بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ صحافیوں میں انور اقبال، اسد حسن، مونا کاظم،جمال خان، خرم شہزاد، نوزیرہ اعظم، یوسف چودھری، سید اصغر امام اور سجاد بلوچ بہت سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ 

نیویارک میں زاہد چودھری ہر وقت پاکستانی سیاست پر سوچتے ہیں، نگہت خان کا بھی یہی عالم ہے، اسی طرح طیبہ ضیاء چیمہ پاکستان کے حوالے سے متفکر نظر آتی ہیں ۔میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی میں ساجد تارڑ خاصے سرگرم ہیں ۔ ساجد تارڑ ایک طرف امریکی سیاست میں متحرک نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پاکستانی کمیونٹی کے افراد کی بھی ہر جگہ مدد کرتے ہیں۔ ان کا ایک شعبہ منڈی بہاؤالدین بھی ہے جہاں کے لوگ آج بھی انہیں ’’آپاں جی دا پتر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ساجد تارڑ نے پاکستانیوں کے لئے دروازے کھول رکھے ہیں۔

امریکہ کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اس کی تفصیلات میاں منیر ہانس کے پاس سب سے زیادہ ہیں۔ یورپ میں بھی میاں طارق جاوید، مخدوم احسان اور چودھری شاہنواز متحرک ہیں۔ فرانس میں یونس خان اورا سپین میں شفقت علی رضا اور عابد علی عابد سرگرم ہیں۔ 

برطانیہ میں کچھ لوگ پاکستانی کمیونٹی کے لئے بہت کام کرتے ہیں اور کچھ برطانوی سیاست میں بڑے سرگرم ہیں۔ ان سے متعلق خبریں طاہر چودھری، وجاہت علی خان، آصف سلیم مٹھا، افضل چودھری آف نڈالہ اور اپنے طاہر نورانی کے ذریعے ملتی رہتی ہیں۔آسٹریلیا میں ڈاکٹر ثمینہ یاسمین، نوشی گیلانی اور محبوب بٹ نے ایک جہان آباد کر رکھا ہے، کینیڈا میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے ڈاکٹر مرتضیٰ اقبال اور سیف اللہ طور ،چودھری جاوید، غوثیہ شبیر، اپنے سلیم پاشا اور عاصمہ باجوہ سرگرم ہیں۔جاپان میں رانا عابد حسین، ملک نور حسین اور عرفان صدیقی نے رونق لگا رکھی ہے۔ سنگا پور میں اکیلا آصف خان ہی کافی ہے ۔افریقی ملکوں میں بھی پاکستانی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، وہاں کردار کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

صاحبو!پاکستانی لوگ تقریباً ہر جگہ ہی آباد ہیں، یہ لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں پاکستان کے لئے فکرمند رہتے ہیں، پاکستان کا دکھ درد صرف محسوس ہی نہیں کرتے ،اس کا مداوا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔یہ وطن سے دور رہ کر وطن کے لئے محبت کے گیت گاتے ہیں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کے لئے دو کام بہت اہم کئے ہیں پہلا یہ کہ تمام سفارتخانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستانی کمیونٹی کی خدمت کریں ان کی توہین نہ کریں بلکہ ان کے لئے کام کریں دنیا کے جن ملکوں میں پاکستانی قیدی موجود ہیں ان کی مدد کی جائے ۔

دوسرا اہم کام یہ کیا ہے کہ انہیں ووٹ کا حق دے دیا ہے ۔ وزیر اعظم سے تیسرے کام کی گزارش ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے پاکستان کی اسمبلیوں میں نمائندگی کا اعلان کریں، اس کے لئے قانون سازی کریں تاکہ اوورسیز پاکستانی بھرپور طریقے سے وطن کی خدمت کرسکیں۔ کالم کا اختتام بھی سمندر پار پاکستانی شاعرہ ریحانہ قمر کے شعر پر ہو جائے کہ

میں جانتی ہوں کہ آنا نہیں کسی نے قمر

مگر منڈیر پہ شمعیں جلا کے رکھتی ہوں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔