Time 29 جون ، 2021
بلاگ

کمخواب میں لپٹا کنکر، چیتھڑے میں لپٹا ہیرا

گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم کا بیان تھا کہ ’’انگریزی زبان اور لباس کا استعمال احساس کمتری ہے‘‘ اور دلچسپ اتفاق ہے کہ اسی بیان کے بالکل نیچے وزیراعظم کا یہ ایک سنگل کالمی اعلان بھی موجود ہے کہ ’’بنی گالہ کے نوجوانوں کے لیےکرکٹ گراؤنڈ تیار کرا رہے ہیں‘‘۔

قارئین!آپ ہی سمجھائیں کہ بندہ کدھر جائے؟ وزیر اعظم کے کس بیان پر کان دھرے اور کس بیان کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دے۔ میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کیا ’’کرکٹ‘‘مسلمانوں یا برصغیر کی ’’ایجاد‘‘ ہے یا گوروں کی یاد گار؟ اور اگر ہمارا یہ ’’قومی جنون‘‘فرنگی کی یاد گار ہے تو اس سے بڑا احساس کمتری کیا ہوسکتا ہے اور کیا کرکٹ شلوار کرتا بلکہ دھوتی یا لاچا پہن کر کھیلی جاسکتی ہے؟ 

ذرا تصور تو کریں اک فاسٹ بولر کا جس نے دھوتی پہن رکھ ہو، اور پھر تصور کریں اس بیٹسمین کا جس نے ہیلمٹ کی بجائے پکڑی پہن رکھی ہو۔ دھوتی کی بات میں اس لئے کر رہا ہوں کہ شلوار بنیادی طور پر ترکوں کا پہناوا ہے جبکہ خود ترک بھی اسے تقریباً ترک کر چکے ہیں۔ ہمارا بالخصوص پنجاب کا لباس تو لاچا، لنگی، دھوتی ہے جس کے بارے مشہور ہے ’’دھوتی دھوتی نہ دھوتی نہ دھوتی‘‘۔

 مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپ نہیں لیکن ظاہر ہے اس سے نفرت بھی ہرگز نہیں اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کھیل کو ترک یا بین کردیا جائے کیونکہ پھر ہمیں کرکٹ ہی نہیں فٹ بال، گولف، ٹینس، لان ٹینس، ٹیبل ٹینس، لڈو، کیر بورڈ، سنوکر سمیت سبھی مہذب کھیلوں کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ 

اور تو اور میرے لئے یہ سوچنا بھی مضحکہ خیز ہے کہ ایمرجنسی کی صورت میں ہمارے فائٹر پائیلٹس شلواریں اور شیروانیاں پہنےچیتوں کی سی رفتار کےساتھ اپنے اپنے جنگی جہازوں کی طرف بھاگ رہےہوں اور رفتار کے سبب ان کی قراقلی ٹوپیاں ہوا میں اڑ رہی ہوں۔اگر پہناوا ہی پیمانہ ہے تو پھر جہاز سے لے کر ٹرین تک، موٹر سائیکل سےلے کر کار تک، انجکشن سے لے کر 99 فیصد دوائوں تک، بجلی سے لے کر سولر انرجی تک، فون سے لے کر کمپیوٹر تک نجانے کس کس شے کو ’’احساس کمتری‘‘ کی علامت قرار دے کر فارغ کرنا ہوگا . . . . . 

یہاں تک کہ بچے کھانی اس مغربی جمہوریت پر بھی لعنت بھیجنا ہوگی اور یہی حال باقی نام نہاد نظاموں کا ہوگا اور سمجھ نہیں آتی کہ ’’پاسپورٹ‘‘ جیسی بدعت کا کیا کریں گےجس کے بغیر آج ہم حج عمرےبھی نہیں کرسکتے۔ رہ گئے IMF، فیٹف، اے ڈی بی، ورلڈ بینک جیسے عفریت اور سارے جدید ترین ہتھیار . . . . . ہم سے تو فلش سسٹم بھی چھن جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ 10000000x رہ گئی انگریزی زبان تو ڈاکٹر، ہسپتال، کرکٹ، فٹ بال، فون، سٹیشن، سیل فون کی ساری ٹرمنالوجی وغیرہ کے ترجمے کون کرے گا؟

 ایک معمولی مثال پیش کرتا ہوں کہ آج ڈومیسائل کا لفظ رکشہ ڈرائیور بھی سمجھتا ہے جبکہ ہمارے احمقوں نے اس کا ترجمہ ’’توطن‘‘ کیا ہے جو اچھے خاصے پڑھے لکھے کے سر سے بھی گزر جائے۔جدید اور فیصلہ کن علوم میں سے ایک بھی ایسا نہیں جسے اردو پنجابی میں پڑھانا ممکن ہو۔ بڑھکیں مارنا اور دُم پہ کھڑا ہونا ہو تو اور بات ہے۔

 اردو تو ہے ہی زبانوں کی زبان، زبانوں کی خوبصورت ترین کاک ٹیل جس کا کیریکٹر ہی یہ ہے کہ یہ دنیا کی ہر زبان کےلفظ بہ آسانی ہضم کر سکتی ہے۔ زبانیں اور لباس ’’پیکنگ‘‘ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ بالکل بے معنی ہے کہ کس نے کیا پہن رکھا ہے۔

 اصل سوال یہ ہےکہ اس ’’پیکنگ‘‘ یعنی پہناوے کے اندر انسان کیسا ہے؟یہ بھی بالکل بیکار ہے کہ میں کون سی زبان بول رہا ہوں؟ پنجابی زبان کا ہی ایک پرانا محاورہ ہے ’’کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا‘‘ یہ دنیا گلوبل ویلیج نہیں گلوبل سٹریٹ میں تبدیل ہو چکی اور ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی۔’’

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘‘مائنڈ سیٹ تبدیل نہ ہوا تو مستقبل بھی بھول جاؤ۔ یہ سب سطحی اور ثانوی باتیں ہیں۔ کبھی سوچا چودہ سو سال پہلے ہمارے اسلاف کیا پہنتے کیا بولتے تھے؟ دنیا زیر و زبر کرکے رکھ دی۔ کوئی عرب تھا کوئی ترک، کوئی کرد تھا، کوئی تاتار، کوئی بربر، تب پسماندہ اہل مغرب نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا لیکن پھر انہیں زنگ لگ گیا، کینسر ہوگیا، دیمک کھا گئی اور آج؟ 

پورے عالم اسلام میں ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں جو ان کی دیومالائی یونیورسٹیوں کا مقابلہ کرسکے ،تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟’’پیکنگ‘‘ پر چار حرف بھیج کر اس بات پر غور کرو کہ ’’اندر‘‘ کیا ہے؟ کمخواب میں لپٹے ہوئے کنکر سے چیتھڑے میں لپٹا ہیرا کہیں زیادہ بیش قیمت ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔