29 جون ، 2021
ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں ٹی وی اینکر، مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق سے پوچھتی ہے کہ آپ تگڑے طریقے سے جیت کر آئے مگر آپ کو اپوزیشن لیڈر نہیں بنایاگیا، ایسا کیوں ہے کہ صرف شہباز شریف ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنیں گے اور پنجاب اسمبلی میں صرف حمزہ شہباز ہی اپوزیشن لیڈر بنیں گے، آپ لوگ نظریاتی ہیں، جیلیں کاٹ کر آئے ہیں، زندگی کے چالیس پچاس سال اِس جماعت کو دے چکے ہیں پھر بھی آپ لوگوں میں کوئی کمی ہے، ایسا کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں خواجہ رفیق شہید کا بیٹا کچھ لمحوں کے لئے بےبسی کی تصویر بنا رہتا ہے اور پھر اسی بےبسی کے عالم میں کہتا ہے ’’میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا‘‘۔ سیاست کتنی بےرحم ہے کہ ایک شعلہ بیاں مقرر کو کتنا مجبور اور بےبس بنا دیتی ہے کہ جواب دینے کے قابل بھی نہیں رہنے دیتی۔ یہی ہماری سیاست کی بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ سیاسی دیوتاؤں کے پجاری ہیں، ہم پر بچے مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق کی زندگی امتحانات سے بھری پڑی ہے، مشکل ترین دور میں تعلیمی سفر جاری رکھا، اس دور میں زندگی کو بچائے رکھا جب یہ رواج تھا کہ ایم ایس ایف کے لیڈروں کو مار دیا جاتا یا مروا دیا جاتا تھا۔ پہلے پہل وہ پنجاب اسمبلی کے رکن بنے پھر قومی اسمبلی میں پہنچے اور چوہدری نثار علی خان کے زیر عتاب آ گئے، اس عتاب کی بڑی وجہ جاوید ہاشمی سے مراسم اور شہباز شریف کی تنگ نظری تھی، سیاسی موسم کی سختیوں کے باوجود خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کھڑے رہے۔
آج چوہدری نثار علی خان وہاں نہیں، ایک زمانے میں چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ ن میں بڑے طاقتور تھے، پارٹی میں ان کی رعونت مشہور تھی۔ انہوں نے کئی لوگوں کو تنگ کیا، خطہ پوٹھوہار میں بہت سے لیگی یہ ظلم سہتے رہے، کچھ تنگ آکر جماعت چھوڑ گئے۔ حالات کی گھمن گھیری بڑی عجیب ہے، مسلم لیگ (ن) میں غرور کی علامت سمجھے جانے والے چوہدری نثار علی خان کو جب نمبر ملتا نظر نہ آیا تو وہ یہ کہتے پائے گئے کہ ’’مریم نواز ہماری بیٹی ہے مگر ہم اسے اپنا لیڈر نہیں مانتے‘‘ اس موڑ پر بھی سوال وہی تھا جو ٹی وی اینکر نے سعد رفیق سے کیا تھا۔
گوجر خان کے رہائشی سابق صوبائی وزیر چوہدری ریاض وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے میاں نواز شریف کو سب سے پہلے کہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان نہ آپ کے لئے ٹھیک ہے اور نہ ہی پارٹی کے لئے۔ چوہدری ریاض کو پہلا مخالف بننے کے صلے میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔
نثار علی خان تو ان کے پیچھے ہی پڑے رہے، یہ طولانی سفر کہاں سے شروع ہوا، یہ بھی پوری داستان ہے۔ داستان کی ابتدا سے پہلے صرف یہ یاد رکھیے کہ مسلم لیگ (ن) میں متکبر اور مغرور سمجھے جانے والے چودھر نثار علی خان آج کل فاتحہ خوانیوں کے بہانے لوگوں کے گھر جاتے ہیں۔
6دسمبر 1992کو بابری مسجد شہید کی گئی، اس روز گوجر خان میں ایک تقریب تھی، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف مہمانِ خصوصی تھے۔ پہلی صف میں حاجی نواز کھوکھر، غلام حیدر وائیں، شیخ رشید، کرنل یامین اور چوہدری ریاض کے علاوہ چوہدری نثار علی خان تشریف فرما تھے۔ اس تقریب کے اسٹیج سیکرٹری ڈاکٹر بابر اعوان تھے۔ 1992ہی میں چوہدری ریاض نے میاں نواز شریف کے سامنے چوہدری نثار علی خان کی مخالفت کی مگر نواز شریف، چوہدری نثار علی خان کی محبت میں گرفتار رہے۔
اس محبت کی خاص وجوہات کا حامد ناصر چٹھہ کو بہت بہتر پتہ ہے۔ اگرچہ نثار علی خان پارٹی میں جاوید ہاشمی، جعفر اقبال، رانا نذیر، تہمینہ دولتانہ اور خواجہ سعد رفیق سمیت کئی لوگوں کو پارٹی قائد سے دور کرنے میں کامیاب رہے مگر خواجہ آصف کا معاملہ مختلف رہا۔ خطہ پوٹھوہار میں حاجی نواز کھوکھر اور راجہ افضل سمیت کئی لوگوں نے پارٹی نثار علی خان کی وجہ سے چھوڑی۔ ایاز امیر تو اتنے بددل ہوئے کہ سیاست سے دور ہو گئے۔ چوہدری تنویر، راجہ نادر پرویز اور چوہدری ریاض سمیت کئی لوگ یہ جبر برداشت کرتے رہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حالیہ سیاست میں نمایاں ہونے والوں کو دیکھتا ہوں تو کئی پرانے چہرے یاد آتے ہیں۔ کئی تو جاں سے گزر گئے مثلاً اگر 12اکتوبر 1999کے بعد سرانجام خان پارٹی کے سیکرٹری جنرل نہ ہوتے تو مسلم لیگ ن کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ سر انجام زمیندار ڈٹا رہا، پارٹی بچا گیا اور پھر وفائوں کا صلہ لئے بغیر قبر میں چلا گیا۔سندھ سے غوث علی شاہ، امداد چانڈیو اور شاہ محمد شاہ کے مقدر میں بھی شاید وفاؤں کا صلہ نہیں تھا۔
پتہ نہیں آج کل سردار مہتاب عباسی، پیر صابر شاہ، اقبال ظفر جھگڑا، عبدالسبحان اور علی خان یوسفزئی کدھر ہیں؟ معلوم نہیں چوہدری صفدر الرحمن اور تہمینہ دولتانہ کدھر گئے؟ سردار یعقوب ناصر اور ذوالفقار کھوسہ کہاں ہیں؟ پیر امین الحسنات اور سعد رفیق کہاں ہیں؟ چوہدری اصغر علی کدھر ہیں؟ خواتین میں بیگم عشرت اشرف، بیگم نجمہ حمید اور شازیہ اورنگزیب کدھر ہیں؟ شازیہ اورنگزیب تو آج کل اے این پی میں ہیں۔ شیخ آفتاب اور منصور حیات ٹمن بڑے دنوں سے نظر نہیں آئے۔
مشکل ترین دور میں جعفر اقبال، احسن اقبال، سلیم اقبال اور خورشید زمان بڑی منصوبہ بندی کیا کرتے تھے، احسن اقبال تو نظر آتے ہیں، باقی پتہ نہیں کہاں ہیں؟ بقول نوشی گیلانی
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرن
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔